روس اور یوکرائن

روس اور یو کرائن نے جو ید ھ بھوم گرما رکھا ہے اس سے اس خطے میںآہن و آگ کی برسات دھا ر بندھی ہوئی ہے ۔جیسے کہ خاک و خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے ۔ جنگ وجد ل سے کبھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہو ا ہے چنا نچہ بہتری اسی میں ہے کہ جو ممالک دنیا کے مائی باپ بن بیٹھے ہیں ان پر یہ ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ دنیا کو اس آگ وخون کے کھیل سے بچائیں ، جب رو س نے یو کرائن پر حملہ کیا تو یو کرائن کے صدر نے بتایا کہ انھو ں نے تقریباًچھبیس ممالک سے بذریعہ ٹیلی فون بات کی کہ یو کرائن کو نیٹو میںشامل کرلیا جائے مگر ہر ایک سے سرد مہری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو ا ، جنگ کے شروع ہونے سے پہلے بھی یوکرائن نے نیٹو میں شمولیت کے لیے امریکا اور دیگر ممالک سے رابطہ کیا تھا تب بھی اس کو کوئی حوصلہ افزا جو اب نہیں ملا تھا ۔جب سوویت یو نین کا شیرازہ بکھرا تھا تب امریکا جانب سے ون ورلڈ آرڈ کا اعلان کیاگیا تھا جس کا مفہو م یہ تھا کہ اب دنیا کی واحد سپر پاور امریکا ہی ہے اور اس کی مر ضی چلے گی۔تاہم اس کے ساتھ یہ بھی تسلیم کیا گیا تھا کہ سوویت یونین سے ٹوٹنے والی ریاستیں روس کی دولت مشترکہ ہو ں گی جس طرح کہ برطانیہ کی دولت مشترکہ کے ممالک ہیں لیکن اب تک امریکا روسی دولت مشترکہ میں قدم جمانے کے لیے چالیں چلتا رہا تاکہ وسطی ایشیا میں اس کا اثر رسوخ مضبوط اور گہر اہو جائے۔ یو کرائن چاہتا ہے کہ اسے نیٹو کا رکن بنا لیا جائے ، تاکہ اس کو ینٹوکی فوجی طا قت حاصل ہو جائے یو ں وہ روس کی بالا دستی سے دور رہے ۔ لیکن نیٹو کے ممالک جو صر ف امریکی ابرواشارہ کے تابع رہتے ہیں انھوں نے یو کرائن کی سنی ان سنی کر دی ، جیسا کہ یو کرائن کے صدر نے چھبیس ممالک کا رونا رویا ہے ۔65کی پاک بھارت جنگ میں بھی امریکا کا یہ ہی کر دار رہا تھا ۔ سقوط ڈھاکہ کے وقت بھی کوئی مختلف کر دار ادا نہیںکیا گیا تھا ۔ حالا ں کہ پاکستان امریکی لابی کا ملک تھا جب کہ بھارت سوویت یو نین کے بلا ک سے جڑا ہو ا تھا مگر امریکی طر ز عمل نے پاکستان کو نا قابل تلا فی نقصان پہنچایا اوراس کے برعکس بھارت کو سوا د بخشا ،مشرقی پاکستان میںخانہ جنگی کے وقت مرحوم ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت جنر ل یحییٰ خان کی کا بینہ میں بطور وزیر خارجہ شامل ہوگئے تھے ایک وفد چین لے کر گئے تاکہ ہنگا مہ خیز کی کوئی راہ نکالی جا سکے ، تب چین کی قیا دت نے پاکستانی وفد کو مشورہ دیا تھا کہ اس کا حل سیا سی بنیا د پر یعنی بات چیت کے ذریعے نکالا جائے ۔ اب بھی چین کے صدر شی جی چنگ نے روسی صدر والا دی میر پیو ٹن سے ٹیلی فونک رابطہ میں یہ ہی مشورہ دیا ہے کہ دونو ں ملک بات چیت کو ترجیح دیں اور آگ وخون سے گریز کریں ۔تاہم جو تازہ صورت حال سامنے آئی وہ یہ ہے کہ یو کرائن نے بیلا رو س میں جو روس کا اتحادی ہے مذاکرات کی تجو یز کو رد کر دیا ہے اس کی بجائے پولینڈ کے شہر ورسا میں بات چیت کی آما دگی ظاہر کی ہے تاہم اس سے بڑھ کر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ، یو کرائن کی طرف سے خامو شی ہے ۔ تاہم ایک اطلا ع ہے کہ جرمنی میں یو کرائن کے سفیر نے کہا ہے کہ یو کرائن صدر پیوٹن سے مذاکرات کر نا چاہتا ہے ۔جو اطلا ع مل رہی ہیں وہ تشویش نا ک بھی ہیں خطرناک بھی ہیں ایک اطلاع کے مطا بق یو کرائن نے شہر ی آبادی میں میزائل یا ایسی دیگر تنصیبات نصب کر دی ہیں ۔ جس سے جنگ مزیدخطرناک صورت حال اختیا ر کر سکتی ہے، روس کی نیشنل سیکو رٹی کو نسل جس نے یو کرائن میں فوجی آپریشن کی اجا زت دی تھی پیو ٹن نے اس کا اجلا س صلاح مشورے اور مزید کارروائی کی منظوری کے لیے طلب کرلیا ہے روسی نیشنل سیکو رٹی کو نسل کے فیصلے سے روس کے آئندہ ارادے واضح ہو پائیں گے ۔اد ھر جو یوکرائن کی مدد کر نے سے عاجز نظر آرہا ہے وہ صرف زبانی کلا می بیا نا ت تک ہی محدو د ہو گیا ہے اور رو س پر پابندوں کے لیے متحرک نظر آرہا ہے اب تک یورپی کونسل جو دوسری جنگ عظیم کے دروان تشکیل پائی تھی روسی رکنیت معطل کر دی گئی ہے جس سے روس کو کوئی گھٹا نہیں ہے ، یو کرائن اور روس تنازعہ میں لگ رہا ہے کہ دنیا دو حصوں میں بٹ رہی ہے۔ امریکا نے جنوبی چین کے حصے میں اپنے اتحادیوں جاپان ، فلپائن ، تائیوان ، ہانگ کانگ ، ویتنام ،سائوتھ کو ریا ، انڈونیشیا، برونائی اور آسڑیلیا کو الرٹ کردیاہے ۔ اس سب صورت حال میں بھارت پھنس کر رہ گیا ہے وہ نہ ادھر کا رہا نہ ادھر کا ، ایک اطلاع یہ ہے کہ امریکا نے اپنے اسٹریٹجک پارٹنر کے طورپر بھارت سے کہا ہے کہ وہ اپنی نیو ی کے ذریعے آبنائے ملا کو کو چین کے لیے بند کر دے ۔چین کی زیا دہ تر تجا رت آبنائے ملا کو کے ذریعے ہو تی ہے ، چین کے لیے اسی فی صد تیل اسی راستے سے جا تا ہے ، اس کی ناکہ بندی کا مقصد چین کی اقتصادی اور تجا رتی ناکہ بندی ہے ، اگر امریکا یہ راستہ بند کر نے میںکا میا ب ہو گیا تو پھر چین کے پا س ایک ہی راستہ گو ادر کی بندر گا ہ کا رہ جاتا ہے جس کے راستے وہ اپنی ضروریات پوری کر سکے ، سی پیک ہی وہ بڑا ہتھیا ر ہے جس کی راہ میں امریکا اور بھارت اسی لیے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں ۔

مزید پڑھیں:  آلوچے، آڑو کے باغات اور آلودگی