اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ روس کے دورے سے قبل امریکا کی جانب سے ایک اعلیٰ سطحی رابطے پر ان کومودبانہ جواب دے دیا گیا تھاپاکستان نے واضح کیا ہے کہ کسی کیمپ سیاست کا حصہ نہیں بننا پاکستان اپنی پالیسیز کے مطابق غیر جانبدار ہے ‘ ہم نے جانبدار پالیسی کی بہت بڑی قیمت چکائی ہے اب وہ پالیسیز اور نہیں چل سکتیں۔ روس کے ساتھ ہمارے تعلقات کے تناظر میں تھا ‘ پاکستان اپنا مفاد دیکھے گا ۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ فٹیف پر بھی روسی وزیر خارجہ سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے روس نے پاکستان کے اقدامات کی تعریف کی اور کہا کہ فٹیف فورم کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہونا چاہئے۔ عمران خان ملک کا مقدمہ لڑنے روس گئے تھے اپنے ذاتی مفاد کا نہیں وزیر خارجہ کی دانست کے برعکس ماہرین کا خیال ہے کہ نامناسب موقع پر وزیر اعظم کے دورہ روس سے پاکستان کے لئے مسائل میں اضافہ ہوگا وزیر اعظم کا دورہ نہ صرف جنگ کی نذر ہوگیا بلکہ حالات کے باعث اہم امور پر بھی خاطر خواہ توجہ کا شاید ہی موقع ملا ہو گا بہرحال پاکستان کی خارجہ پالیسی ایسی گنجلک اور گوناگوں ہے کہ ایک جانب ان کی جانب سے اس امر کا اعادہ کیا جاتا ہے کہ ہم کسی بلاک کا حصہ نہیں لیکن ساتھ ہی امریکہ ‘ برطانیہ ‘ چین ‘ روس سبھی کے ساتھ پاکستان کسی نہ کسی طور روابط کااظہار بھی کرتا ہے ایسے میں کسی بلاک کا حصہ نہ ہوناتوبہتر حکمت عملی ہو گی لیکن ایسا کرکے تین میں نہ تیرہ میں ہونے کا جوخدشہ ہے وہ بھی اپنی جگہ حقیقت اور نازک صورتحال ہے ۔ان عوامل سے قطع نظراگردیکھا جائے تو پاکستان امریکہ سے دور ہوتا جارہا ہے اور اس کے چین اور روس کے ساتھ تعلقات بہتر ہوتے جارہے ہیں۔پاکستان کا بڑا مسئلہ تجارتی اور اقتصادی تعلقات ہیں جس میں امریکہ اور یورپی یونین کا کردار اہمیت کا حامل ہے پاکستان کی امریکہ سے دور ی کے تجارتی اثرات بہت زیادہ ہونگے نیز عالمی بینک اور آئی ایم ایف کی ناراضگی بھی مول لینا کوئی آسان کام نہیں۔محولہ معاشی مفادات کے تناظر میںاگر دیکھا جائے توعالمی معیشت میں روس کا صرف تین فیصد حصہ ہے جبکہ پاکستان اور روس کے درمیان تجارتی تعلقات کی نوعیت بھی کوئی حوصلہ افزاء نہیں اس لئے کہ پاکستان کی صرف ایک فیصد برآمدات روس کو جاتی ہیںعالمی سطح پر روس کے کردار کا جائزہ لیا جائے تو روس کے پاس آئی ایم ایف کے ڈھائی فیصد ووٹوں کی حمایت ہے ایف اے ٹی ایف میں بھی روس کا حصہ بہت تھوڑا ہے ۔ایسے میں بیک وقت پاکستان کی امریکہ ‘ روس اور چین کے ساتھ تعلقات کیسی ڈوپلومیسی ہے اور یہ کیسے ممکن ہے کہ سب کے ساتھ ایسے تعلقات رکھے جائیں کہ کوئی فریق بھی ناراض نہ ہو۔
محصور پاکستانیوںکو نکالنے کے جلد اقدامات کی ضرورت
خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے یوکرائن میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ یوکرائن میں چار ہزار سے زائد طالب علم اور کاروبار ی افراد محصور ہو چکے ہیںجن کا محفوظ انخلاء یقینی بنایا جائے ۔امر واقع یہ ہے کہ روس اور یوکرائن کے درمیان اچانک سے جنگ نہیں چھڑی ہے بلکہ جنوری سے یہ کشیدگی اپنے انتہا پر چلی آرہی تھی اس دوران کی صورتحال میں کسی بھی وقت جنگ چھڑنے کا قوی امکان موجود تھا جس کے پیش نظرپاکستانی حکومت کو بالخصوص اور وہاں پر مقیم افراد کو بالعموم اس حوالے سے اپنی اپنی ذمہ داریوں پرتوجہ دینے کی ضرورت تھی لیکن بدقسمتی سے ہر دوجانب سے اس حوالے سے روایتی تساہل اور تاخیر کا مظاہرہ کیا گیا۔ چین میں جب کورونا وباء پھیلی تو تمام ممالک نے اپنے شہریوں کو خصوصی پروازیں چلا کر وہاں سے نکالا لیکن پاکستانی بے یارومدد گار پڑے رہے یہی صورتحال کویت اور عراق میں بھی درپیش تھی جس سے پاکستان کی حکومت اور پاکستانی شہری دونوں کے حوالے سے پانی سر سے اونچا ہونے تک شتر مرغ کی طرح سر ریت میں دیئے رکھنے کا الزام غلط نہیں لیکن یہ وقت الزام تراشی اور تنقید کا نہیں بلکہ یوکرائن میں پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی واپسی کے لئے اقدامات کرنے کا ہے جس کے لئے جتنا جلد ممکن ہو سکے اقدامات کئے جائیں جب تک ایسا ممکن نہیں ہوتا تب تک کم از کم سفارتی عملے کو یہ سختی سے ہدایت کی جائے کہ وہ محصور پاکستانیوں کے حوالے سے معاندانہ رویہ ترک کرے اور ان کی مدد کی ذمہ داری نبھائیں۔
سکول سربراہوں کو پابند بنانے کااحسن فیصلہ
محکمہ ابتدائی تعلیم کی جانب سے تمام سرکاری سکولوں کے سربراہوں کے لئے بائیو میٹرک ڈیوائس یا رجسٹرڈ پر حاضری لگانے کو لازمی قرار دینا احسن اقدام ہے سربراہوں کو اپنی آمد و روانگی کے اوقات کے اندراج کے ساتھ حاضری لگانے سے ان کی موجودگی اور دورانیہ کو جانچا جا سکے گاسکول سربراہان وقت پر سکول آنے اور جانے کا وتیرہ اختیار کریں تو اس کے نتیجے میں لازمی طور پردیگر اساتذہ اور عملے کے دیگر افراد بھی وقت کی پابندی کریں گے۔یہ ایک احسن فیصلہ ہے جس پر عمل درآمد میں سنجیدگی اختیار کرنے سے سرکاری سکولوں میں بہتری کی توقع ہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی گرانے کا تسلسل