روس ‘ یوکرائن امن کو ایک موقع ضرور دیں

یوکرائن کے صدارتی مشیر میخائیلو پوڈولیک نے کہا ہے کہ یوکرائن امن اور روس کے ساتھ نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن(نیٹو) کے حوالے سے غیرجانبدار حیثیت سمیت مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔یوکرائن کے صدارتی مشیر میخائیلو پوڈولیک کی جانب سے یہ بیان کریملن کے اس موقف کے بعد آیا ہے جس میں کہا تھا کہ روسی صدر ویلادیمیر پیوٹن اپنا وفد یوکرائن کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کے لئے منسک بھیجنے کے لئے تیار ہیں۔روس چاہتاہے کہ یوکرائن یہاں الیکشن ریفرنڈم کروائے اورمقامی لوگ جس کے ساتھ چاہیں الحاق کریںیوکرائن چاہتاہے روسی فوج اپنے اسلحے سمیت اس علاقے سے نکلے تب شفاف ریفرنڈم ہوسکے گا روس کاموقف ہے کہ پہلے ریفرنڈم ہوگا بعد میں اگلی بات ہوگی۔صورتحال یہ ہے کہ ملک کے80 فیصدعوام آج یورپی نظام کو بہترمانتے ہیں۔باقی بیس فیصد لوگ روسی نظام کے خواہاں ہیں۔ یہ ملک دوبڑی طاقتوں اور دو براعظموں کے بیچ میدان جنگ بنا ہوا ہے۔پچھلے پندرہ سال سے روس اور یوکرائن میں سردجنگ چل رہی ہے ۔ روس کویہ علاقہ واپس چاہئے مگر یوکرائن کے آدھے سے زیادہ لوگ یورپ جیسی طرز زندگی اوراپنی آزادی کوپسندکرتے ہیں روس کے نزدیک یوکرائن میں رہنے والے روسیوں کے ساتھ ظلم ہورہاہے دراصل یہ قوم پرستی کے زیرسایہ اپنے مفادات کی جنگ ہے۔اسے بدقسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ منسک امن معاہدے بھی یوکرائن اور روس کے درمیان پائیدار قیام امن کے حوالے سے کامیاب ثابت نہیں ہو سکے ۔اس کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر عائد نہیں کی جا سکتی لیکن بہرحال یہ امر اپنی جگہ درست ہے کہ یوکرائن روس کے ان خدشات کا ازالہ کرنے میں ناکام رہا جو مغربی اتحاد کے حوالے سے روس کو لاحق رہے ۔اس ضمن میںروس اپنے تحفظات پرکسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کیا جس کا نتیجہ لڑائی کی صورت میں آج سامنے ہے۔یاد رہے کہ منسک معاہدہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی اور فرنٹ لائن سے بھاری ہتھیار ہٹانے ‘ جنگی قیدیوں کی رہائی اور خاص طور پرڈونباس کے مخصوص علاقوں کی خود مختاری تسلیم کرنے کے لئے یوکرائن میں آئینی اصلاحات کا تقاضا کرتا تھابدقسمتی سے فریقین میں کشیدگی پرمنتج ہوایوں فریقین اس امن معاہدے پر عمل کرنے میں ناکام رہے اور 2014ء سے یہ امن معاہدہ غیر سنجیدگی کا شکار چلا آرہا ہے یہاں تک صدر زیل نیسکی کو جب ڈوناباز کی خود مختار ری پبلک کے رہنمائوں سے مذاکرات کی تجویز دی گئی تو انہوں نے انہیں دہشت گرد قرار دے کر انکا ر کردیابعد ازاں رواں سال جنوری میں یوکرائن کی نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری نے یہ کہہ کر منسک امن معاہدے پر پانی پھیر دیا کہ اس معاہدے کی تعمیل یوکرائن کی تباہی ہو گی جس کے بعد روسی افواج کا سرحدوں پر اجتماع اور بیلا روس میں جنگی مشقیں ہوئیں اور ساتھ ہی امریکی صدرجوبائیڈن کے تندو تیز بیانات سامنے آتے گئے لیکن یوکرائن کو جن جن طاقتوں نے ہلہ شیری دیتے رہے وقت آنے پر ان سب نے سرد مہری کا رویہ اختیار کیااسے یوکرائن کی بدقسمتی ہی قرار دیا جا سکتا ہے کہ جن جن ممالک کی جانب سے روس کے خلاف ان کا کندھا تھپتھپا یاجاتا رہا ہے وہ آج ان کے ساتھ نہیں ہیں جویوکرائن کی قیادت کے لئے بڑا سبق ہے دوسری جانب روس کا طرز عمل بھی قابل قبول نہیں اس لئے کہ روس کی دفاعی نکتہ نظر میں یہ کارروائی جتنی بھی ضروری ہو مگر دنیا میںاسے ایک ایسی جارح قوت کے طور پر پیش کیا جارہاہے جس سے کمزور ہمسائے محفوظ نہیں اور نہ ہی روس ان ممالک کے ساتھ معاہدوں کی پابندی کر رہا ہے ۔یوکرائن کی جانب سے مذاکرات کی پیش کش کو منسک معاہدے میں امن کے ایک بڑے موقع کو ٹھکرانے اور غلطی کو سدھارنے کا ایک موقع اور کوشش قرار دیا جا سکتا ہے یوکرائن کو اب بخوبی اس امر کا اندازہ ہو جانا چاہئے کہ وہ بے اعتبار مغربی ساتھیوں کے ہاتھوںکب تک کھیلتا رہے گا۔دیکھا جائے تو یوکرائن کا پائیدار مستقبل مغربی ساتھیوں کی خواہشات پر چلنا نہیں بلکہ روس کے ساتھ پائیدار امن میں ہے یہی مشرقی یورپی ریجن کو مزید تقسیم اور عدم استحکام سے روک سکتا ہے اور یہی علاقائی مفاد کا تقاضا بھی ہے ۔یورپی ممالک اور نیٹوکے لئے بہتر یہی تھا کہ وہ یورپ کو مسلح تصادم کے خطرات سے محفوظ رکھنے کی سنجیدہ سعی کرتے مگریہ انہی کی غلطی کا باعث ہے کہ یوکرائن میں تصادم کو ہوا دی گئی جس کے نتیجے میں آج جنگ کی آگ یورپ کے دروازے پر پہنچ چکی ہے ۔صدر زیل نیسکی کی جانب سے مذاکرات کی دعوت اور روس کی جانب سے مشروط آمادگی سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ آتش و آہن کا یہ کھیل جلد رک جائے گااگرچہ فی الوقت مقام کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں لیکن یہ ایسا مسئلہ نہیں جس پر اتفاق رائے یا پھر کوئی درمیانی صورت تلاش نہ کی جا سکے۔اقوام عالم اور خاص طور پر خطے کے ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کریں۔اقوام عالم روس اور یوکرائن کے درمیان ثالثی مصالحت اور ان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور مذاکرات کو نتیجہ خیزبنانے کی ذمہ داری نبھائیں تاکہ اس بحران کے اثرات سے پوری دنیا کو محفوظ بنایا جاسکے اور یہاں کے باشندوں کو انسانی المیہ سے دوچار ہونے سے محفوظ بنایا جا سکے جو دنیا کے تمام ممالک کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔

مزید پڑھیں:  جعلی لائسنس تحقیقات میں پیشرفت