بچوں کیلئے خوف کی علامت نہ بنیں

اساتذہ، والدین اور قریبی رشتہ داروں کا رویہ بچوںکے لئے آگے بڑھنے میں نہایت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اساتذہ اور والدین کے دوستانہ رویے سے بچے سیکھتے ہیں ان کی تخلیقی صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ بچے جس بات سے لاعلم ہوتے ہیں وہ اپنے بڑوں یا اساتذہ سے پوچھ لیتے ہیں لیکن جب اساتذہ اور بڑے بچوں کیلئے خوف کی علامت بن جاتے ہیں تو بچے اساتذہ سے پوچھنے میں ہچکچاتے ہیں کیونکہ بچے جانتے ہیں کہ پوچھنے پر ان کی بے عزتی کر کے دیگر بچوں کے سامنے انہیں شرمندہ کیا جائے گا یوں اساتذہ کے تلخ رویے کی وجہ سے سیکھنے کا عمل کمزور پڑ جاتا ہے۔
والدین جب اساتذہ سے متعلق بچوں میں خوف محسوس کریں تو فوری اس کے ازالے کی کوشش کریں، اگر آپ از خود بچوں کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر ہیں تو پھر جب وہ شکایت کریں تو ان کی شکایت کو غور سے سنیں، شکایت کو ہرگز نظر انداز نہ کریں، کیونکہ نظر انداز کرنے کی صورت میں کوئی اَن دیکھا شخص آپ کے بچے کا استحصال کرتا رہے گا اور آپ کو معلوم بھی نہ ہو گا۔
بچے کمزور ذہن کے مالک ہوتے ہیں جو بہت جلد بڑوں کے خوف میں آ جاتے ہیں اس خوف کے دو بڑے نقصان ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ بچے جس طرح دوستانہ ماحول میں سیکھتے ہیں ڈر و خوف میں ویسے نہیں سیکھ سکتے ہیں۔ ضروری نہیں یہ خوف اسکول میں ہی ہو بلکہ ٹیوشن، گھر اور بہت قریبی عزیز کا بھی ہو سکتا ہے۔
بچے جب کسی سے خوف محسوس کرتے ہیں تو صاف لفظوں میں اس کا اظہار کرنے کی بجائے اشارے دیتے ہیں، جب بچے استاذ کا نام آتے ہی بہانے بنانے لگیں تو سمجھ جائیں کہ بچے کمفرٹیبل نہیں ہیں، یہ نہ سمجھیں کہ بچے ہیں اور پڑھائی سے جی چرانے کیلئے بہانے بنا رہے ہیں، جب تک معاملے کوگہرائی تک نہیں سمجھیں گے بچے نفسیاتی دباؤ میں رہیں گے۔
معاملے کو سمجھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ بچے کو اعتماد میں لیں اس کی پسند کی چیز دلائیں، اس پر سختی نہ کرنے کا یقین دلائیں اور پیار سے پوچھیں کہ بات کیا ہے، جب آپ بچے پر اعتماد کریںگے تو بچہ جس مسئلے سے دوچار ہو گا وہ بیان کر دے گا لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ جب آپ نے بچے کو کچھ نہ کہنے کا یقین دلا دیا ہے تو پھر اپنی کہی ہوئی بات پر قائم بھی رہیں، بھلے معاملہ آپ کے مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، کیونکہ جب آپ بچے سے وعدہ خلافی کرتے ہوئے اس پر تنقید کرتے ہیں تو بچوں کا آپ پر یقین ختم ہو جاتا ہے اور وہ آپ سے بات چھپانے لگتے ہیں۔
بسا اوقات اساتذہ کا رویہ ایسا ہوتا ہے کہ انہیں خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ بچوں کے فائدے کی بجائے نقصان کر رہے ہیں، اسے یوں سمجھیں کہ جب اساتذہ بچوں کے معمولی تاخیر سے آنے پر سختی کرتے ہیں تو بچے ڈانٹ سے بچنے کیلئے اس دن کی چھٹی کرنے کا بہانہ تلاش کرتے ہیں، یوں دیکھا جائے تو بچوں کا زیادہ نقصان ہو جاتا ہے کیونکہ اگر بچے تاخیر سے گئے ہیں تو بہر صورت وہ کلاس لیں گے جو ان کے لئے اسی سے نوے فیصد مفید ثابت ہو گا لیکن جب سختی کے ڈر سے وہ اس دن کی چھٹی کر لیں گے تو ان کا پورا دن برباد ہو جائے گا۔
تعلیم میں تشدد اور سختی کا رجحان کہاں سے آیا اس بارے حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر بدقسمتی کی بات ہے کہ مسلم سماج میں زیادہ ہے جس کا خاتمہ ہونا چاہئے۔
دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ جب بچوں کو والدین، اساتذہ اور قریبی لوگوں سے دوستانہ ماحول نہیں ملتا ہے تو ہوس کے پجاری لوگ اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بچوں کے قریب ہو جاتے ہیں، ایسے لوگ بظاہر بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اپناتے ہیں، بچوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں اور بچوں کے ساتھ ہونے والی سختی کو سنتے ہیں، بچے اپنی کہانی بیان کرکے سکون محسوس کرتے ہیں کیونکہ وہاں بچوں کو ہر بات کا ہاں میں جواب ملتا ہے۔
بچوں کی اسی کمزوری کا فائدہ کر یہ لوگ ان کا استحصال کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بچوں کے تعلیمی نقصان اور استحصال کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہوتے ہیں سختی ان میں سب سے نمایاں ہے، سو جہاں تک ممکن ہو سکے بچوں کے ساتھ سختی نہ کیجئے اور ایسے اساتذہ کا انتخاب کیجئے جو سختی کی بجائے شفقت سے پڑھانے کا فن جانتے ہوں۔

مزید پڑھیں:  آلوچے، آڑو کے باغات اور آلودگی