پاک روس تعلقات کا نیاباب

دنیا دوبلاکس میں تقسیم ہونے نہیں جا رہی بلکہ دنیا عملی طور پر دو بلاکس میں تقسیم ہو چکی ہے۔ایک طرف امریکہ کی قیادت میں روایتی مغربی بلاک ہے جس کے اکثر ممالک گزشتہ دہائیوں کے ہر سردوگرم میں امریکہ کے ساتھ کھڑے رہے اور دوسری طرف چین اور روس کی قیادت میں ایشین بلاک قریب قریب وجود میں آچکا ہے ۔اس تقسیم میں غیر جانبداری کے لئے گنجائش بالکل اسی طرح محدود ہے جیسا کہ سرد جنگ کے زمانے میں تھی ۔اب چار وناچار ملکوں نے پنڈولم کی طرح جھولنا ہے یا پھر کسی ایک طرف جانا ہے ۔ایسے میں پاکستان کے پاس بھی اپنے ایشیائی بلاک کے ساتھ وابستہ ہوئے بنا کوئی چارہ نہیں ۔مغربی بلاک نے پاکستان کو اتحادی اور شراکت دار بنانے کی بجائے ہمیشہ آجر اور اجیر کی نظر سے دیکھا ۔مجبوری کے وقت پاکستان کو آنکھیں دکھا کر اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر لیا اور کام نکلنے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح چھوڑ دیا ۔اس رویے نے پاکستان کی ہیئت مقتدرہ کو ردعمل کا شکار بنایا اور انہوںنے پاکستان کو مغرب سے دور کرکے چین کے قریب کرنے کا راستہ اپنایا ۔چین کی قربت نے ہی روس کے ساتھ پاکستان کی قربت کا سامان کیا ۔مغرب اور روس کے درمیان یوکرین کا تنازعہ ایک آتش فشاں بن چکا تھا ۔ایسے میں روس کے صدر ولادی میرپوٹن نے وزیر اعظم عمران خان کو ٹیلی فون کرکے دورہ ٔ روس کی دعوت دی ۔اس دورے کی منصوبہ بندی آگے بڑھنے لگی تو یوکرین میں کشیدگی میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔روس نے یوکرین کی سرحد پر ٹینکوں کا سیلاب کھڑا کر دیا ۔کیف اور ماسکو کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بڑھتا چلا گیا ۔اس کشیدگی کے پیش نظر ملک کے اندر عمران خان کو دورہ ملتوی کرنے کے مشورے دئیے جانے لگے ۔ان کی سلامتی اور جنگ کی صورت میں محصور ہوجانے کی باتیں عام ہونے لگیں ۔یہاں تک شاہ محمود قریشی کے بقول امریکہ سے ایک اہم ٹیلی فون آیا اور کہا گیا کہ اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ ایشین بلاک کا حصہ بننے جا رہے ہیں ۔جواب میں انہوںنے کہہ دیا کہ بلاک کی بات نہیں مگر یہ دورہ ہوگا ۔یہ تقریباََ وہی مشہور زمانہ ٹیلی فون کال جیسی ہی تھی جس میں کولن پائول نے جنرل پرویز مشرف سے پوچھا تھا کہ” آپ ہمارے ساتھ ہیں یا دہشت گردوں کے ساتھ ”۔اس بار پوچھنے کا انداز شاید ویسا نہ ہو مگر مفہوم یہی تھا کہ کیا آپ ایشین بلاک کا حصہ بننے جا رہے ہیں؟۔ شاہ محمود قریشی نے جو بھی جواب دیا ہو مگر امریکی بھولے نہیں وہ یہ حقیقت جان گئے ہیں کہ پاکستان اب مغرب کی بے دام غلامی کا زمانہ پیچھے چھوڑ چکا ہے۔مغرب کی دوستی نے سو پیاز اور سو جوتوں کے سوا پاکستان کو کچھ نہیں دیا ۔عمران خان ماسکو پہنچے تو روس نے یوکرین پر حملہ کردیا ۔اب پاکستان کے لئے ایک نیا امتحان شروع ہوگیا کہ وہ دورہ ختم کرکے واپس لوٹتے ہیں یا روسی اقدام کے حق میں کھل کربول کر میزنان کو خوش کرتے ہیں۔یہ تنی ہوئی رسی کا سفر تھا ۔عمران خان نے دور مختصر کیا اور جب پاکستان نے اعلامیہ جاری کیا تو اس میں جنگ سے بیزاری اور معاملے کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی بات نمایاں تھی۔ کشمیر پرہونے والی بات چیت بھی اعلامئے کا حصہ تھی ۔ماسکو میں پاکستانی وفد نے توانائی کے کئی منصوبوں میں اشتراک پر بھی اتفاق کیا ۔عمران خان ماسکو میں تھے تو امریکی نمائندے نے اس دورے پر تبصرہ کیا ۔یہ دوسری بار تھا جب امریکہ پاکستان پر تبصرہ کررہا تھا ۔ایسا ہی تبصرہ اس وقت کیا گیا تھا جب عمران خان بیجنگ میں موجود تھے ۔بیجنگ کے دورے کے وقت کا لہجہ معمولی سا گرم جوش تھا مگر ماسکو کے دورے والے بیان میں سائبیریا کی سردی کا غلبہ تھا ۔پیوٹن مغرب کے ساتھ اپنی کھینچاتانی کے اہم موڑ پر مغرب کے روایتی اتحادی پاکستان کے حکمران کا استقبال کرکے ایک طرح سے تفاخر اور طمانیت کا اظہار کررہے تھے ۔جیسے انہوںنے مغرب کا ایک اہم اتحادی ان سے چھین لیا ہو۔اس سے پیوٹن اپنے مضبوط اعصاب ہونے اور حالات کے نارمل ہونے کا تاثر بھی دے رہے تھے ۔وہ دنیا کو بتارہے تھے کہ یوکرین جنگ ایک معمول کی کارروائی ہے جس کا روس اور صدر پیوٹن کے اعصاب پر کوئی اثر نہیں ہوا اور وہ معمول کے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔روس اور پاکستان تعاون اور تعلق کی نئی راہوں پر گامزن ہو رہے ہیں۔اس تعاون کے اثرات زمین پر نظر آنا لازمی ہیں۔پانچ اگست 2019وہ سیاہ دن ہے جب بھارت نے کشمیر پر فیصلہ کن حملہ کیا ۔پاکستان چین کے ذریعے یہ شکایت سلامتی کونسل میں لے گیا۔ چین اس مقدمہ کا کھلا حامی اور وکیل تھا اور جس دوسرے ملک نے دھیمے سُروں میں اس کی حمایت کی وہ روس تھا۔پاکستان کے روایتی مغربی اتحادی اس اہم ترین موڑ پر بھارت کے ساتھ کھڑے تھے اور انہوںنے مسئلہ سلامتی کونسل میںزیر بحث آناتو درکنا ر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہونے دیا ۔یہی مغربی اتحادی اب چاہتے ہیں کہ پاکستان یوکرین کی آزادی اور اقتدار اعلیٰ کا پھریرا لہرا کر” سلطان راہی ” بن کر سامنے آئے۔بین الاقوامی تعلقات دوطرفہ اور باہمی مفاد اور احترام پر مبنی ہوتے ہیں ۔اصول نامی کسی چڑیا کا گزر ان دشت کی راہوں میں نہیں ہوتا ۔یہ سبق پاکستان کو پانچ اگست کے فیصلے کے بعد حالات نے پڑھایا ہے۔

مزید پڑھیں:  اچھا منصوبہ