اب آکے دیکھ جانبازوں کی ٹولی میں مجھے جاناں

دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو ‘ معلوم نہیں اسے یادش بخیرکہا جا سکتا ہے یانہیں کہ جن یادداشتوں کا تذکرہ مقصود ہے ان کے ساتھ کچھ تلخیاں بھی نتھی ہیں ‘ بہرحال ماضی میں جھانکنے کی وجہ روس اور یوکرین کے مابین حالیہ جنگ کے حوالے سے یوکرین میں عام شہریوں کومسلح کرنے کا فیصلہ اور ان سے جنگ میں شرکت کی اپیل ہے ‘ جبکہ تازہ خبروں میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے یعنی یوکرین کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ عمر کی قید کے بغیر تمام شہری ڈیفنس فورس میں شرکت کر سکتے ہیں ‘ اس صورتحال نے ہماری یادداشت کے بند دریچوں کو کھولنے میں مدد دی ہے اور ہمیں جنگ ستمبر 1965 کی یاد دلا دی ہے ‘ جب اسی طرح بھارت نے لاہور پر شب خون مارنے کی غلطی کی تھی ‘ غلطی اس لئے کہ اس کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے تھے اور نہ صرف رات کے اندھیرے میں واہگہ بارڈر کوکراس کرکے بھارت کے بڑبوٹ فوجی ٹولے کا یہ خواب پاکستانی افواج نے چکنا چور کر دیا تھا۔ چونڈہ کے میدان میں ہماری جری افواج نے بھارتی ٹینکوں کے پورے ” ریوڑ ” کو جس طرح روکا وہ بھی جنگی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ تین سو سے زائد ٹینکوں کے ساتھ پاک سرزمین پرحملہ آور ہونے والی بھارتی افواج کی طرف پیش قدمی کرنے والوں کو پاک فوج کے جری اور بہادر افواج نے اپنے جسموں سے بم باندھ اور جانوں کانذرانہ دے کر دفاع وطن کو ممکن بنایا ‘ قوموں کی تاریخ میں یہ بھی ایک ایسا کارنامہ تھا جس کی مثال پہلے کہیں نہیں ملتی۔ آج یوکرین میں شہریوں کوجنگ میں حصہ لینے کی جو ہدایات جاری ہوئی ہیں انہی کی طرز پر پاک بھارت جنگ کے دوران بھی اپنی مسلح افواج کے شانہ بشانہ عام شہریوں کوبھی لگ بھگ اسی قسم کی سرگرمیوں میں ملوث کیا گیا تھا ‘ اگرچہ انہیں ہتھیار اٹھا کر میدان جنگ میں نہیں بھیجا گیا تھا کیونکہ عام شہریوں کو مسلح افواج کی طرز پر جنگی تربیت تو نہیں دی گئی تھی اور اس کے باوجود کہ 1948ء کی طرز پر کشمیر میں ہمارے قبائلی عوام کو جس طرح بزدل دشمن کے خلاف لڑائی میںحصہ لینے کا موقع ملاتھا ‘ ایسا ناممکن تھا کیونکہ غیر تربیت یافتہ افراد کو محاذ جنگ پر بھیجنے سے جو افراتفری مچ سکتی تھی اس کے نقصانات زیادہ ہوسکتے تھے اس لئے شہریوں کو”شہری دفاع” کی ایک تنظیم کے تحت معمولی تربیت دے کر یعنی پریڈ وغیرہ کرا کے اور ایک مخصوص(ملیشیا کی وردی) پہنا کر عام شہریوں کو منظم رکھنے پر مامور کیاگیا تھا ۔ عجیب بلکہ حیرت ناک امر یہ تھا کہ تقریباً ڈھائی ہفتے پر محیط اس جنگ کے دوران اور بعد کے ایام میں بھی ملک بھر میں کہیں سے چوری چکاری کی رپورٹ سامنے نہیں آئی ‘ گویا اس دوران چوروں نے چوری ‘ ڈکیتوں نے ڈکیتی اور دیگر جرائم پیشہ افراد نے توبہ تائب ہو کر ملکی یک جہتی میں بھر پور تعاون کیا ‘ جبکہ ملک بھر میں دفاعی فنڈز کے نام سے لوگوں نے دل کھول کر چندے اور ضرورت کی اشیاء کے انبار لگا دیئے چونکہ پاک بھارت سرحدات پر متعدد مقامات پر عوام کو اپنے گھر بار چھوڑ کر افراتفری میں نقل مکانی کرنا پڑی تھی جنہیں حکومتی سطح اور رضا کاروں کی مدد سے محفوظ مقامات پر عارضی طور پر بسایا گیا تھا یعنی قریبی (محفوظ) علاقوں میں سکولوں کی عمارتوں میں ٹھہرایا گیا تھا اور یہ وقت سردیوں کی شروعات کا دور تھا اس لئے ان لوگوں کو کپڑوں ‘ کمبل ‘ رضائیوں ‘ جوتوں وغیرہ کی ضرورت تھی ‘ اور ملک کے دیگر شہروں میں نہ صرف رضا کار تنظیموں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹی کے طلبہ اور طالبات نے اپنے اپنے علاقوں میں گھر گھر جا کر عطیات کی صورت میں یہ اشیاء اکٹھی کیں اور ٹرکوں کے ٹرک بھر بھر کرمتاثرہ افراد میں تقسیم کرنے کے لئے روانہ کئے جو وہاں حکومتی حکام کی نگرانی میں سول ڈیفنس کے رضا کاروں نے ضرورت مندوں تک پہنچائے ‘ راقم اس وقت گورنمنٹ کالج پشاور میں زیر تعلیم تھا ‘ ہم نے اپے پروفیسر مرحوم عبدالودود منظر کی نگرانی میں ایک ڈرامہ سٹیج کیا ‘ جس کے ذریعے تین دن میں ہزاروں روپے اکٹھے کرکے دفاعی فنڈ میں جمع کرائے اس دوران ملکی سطح پر ایک زبردست نعرہ پذیرائی حاصل کر رہا تھا اور وہ تھا”ایک پیسہ ایک ٹینک” ۔ اس کا پس منظر یہ تھا کہ ان دنوں ملکی آبادی تقریباً بارہ کروڑ تھی اور محولہ نعرے کے پیچھے بیانیہ یہ تھا کہ اگرملک کا ہر شہری دفاعی فنڈ میں ایک ایک پیسہ جمع کرائے تو روزانہ ایک ٹینک خریدا جا سکتا ہے ‘ اسی نعرے کا کمال تھا کہ ہر شخص اپنی استعداد سے بڑھ کر دفاعی فنڈ میں چندہ دینے میں فخر محسوس کرتا تھا۔
اب آکے دیکھ جانبازوں کی ٹولی میں مجھے جاناں
بہ صد سامان رسوائی سربازار رقصاں ہوں
یوکرین اور پاکستان کے حالات میں ایک قدر مشترک ضرور ہے ‘ یعنی جس طرح 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران امریکا نے پاکستان کا اتحادی ہونے کے باوجود نہ صرف پاکستان کی کوئی مدد نہیں کی تھی بلکہ الٹا پاکستان کو جنگی سازو سامان(ٹینکوں ‘ ہوائی جہازوں کے فاضل پرزے اور گولہ بارود) پر پابندی لگا کر بے دست و پا کرنے کی کوشش کی تھی ‘ مگر یہ تو پاکستانی افواج کا کمال تھا کہ اس کے انجینئروں نے ناکارہ جنگی سازوسامان کی مرمت کرکے اور ناکارہ ٹینکوں اورجہازوں سے پرزے نکال کر دوسرے ٹینکوں اور طیاروں میں فٹ کرکے انہیں قابل استعمال بنا کردشمن کا مقابلہ کیا ‘ اسی طرح اب امریکا نے دستیاب خبروں کے مطابق یوکرین کی مدد سے بھی انکار کردیا ہے ‘ تاہم جنگیں صرف جنگی سازوسامان سے لڑی اور جیتی نہیں جا سکتیں بلکہ اس کے پیچھے قوموں کے عزائم کام کرتے ہیں اور پاکستان نے یہ کرکے دکھا دیا تھا ‘ مگر اب یوکرین جنگ کا کیا نتیجہ نکلتا ہے جلد ہی معلوم ہو جائے گا۔
ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو

مزید پڑھیں:  بجلی گرانے کا تسلسل