اقتصادی پالیسیوں پر نظر ثانی وقت کا تقاضا

چوتھا صنعتی انقلاب حالیہ تاریخ میں رونما ہونے والے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے، جس نے نہ صرف برطانیہ کی سیاسی معیشت کی حالت بدل دی بلکہ اس سے یورپ باقی دنیا سے آگے بھی نکل گیا۔اگرچہ یہ انقلاب بنیادی طور پر ایک معاشی معاملہ تھا، لیکن اس نے پورے براعظم کے سیاسی اور سماجی منظر نامے کو ڈرامائی طور پر تبدیل کیا۔ یہ واقعہ افریقہ اور ایشیا میں نہیں بلکہ برطانیہ اور یورپ میں کیوں پیش آیا اور اتنے بڑے واقعہ کی ترکیب کیا تھی؟ ان سوالوں کا کوئی سیدھا سادہ جواب نہیں ہو سکتا۔ ماہرین عام طور پر سماجی نقطہ نظر، مذہبی زاویے یا یہاں تک کہ جغرافیائی اور آبادیاتی نقطہ نظر کے ذریعے صورتحال کی وضاحت کی کوشش کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ قابل فہم وضاحت ایک انسانی نقطہ نظر ہو سکتی ہے جس نے 15ویں اور 16ویں صدیوں میں آرتھوڈوکس کو چیلنج کیا تھا۔ تھامس ہوبز، گلیلیو، کوپرنیکس، رینے ڈیکارٹس، مونٹیسکوئیو اور جان لاک جیسے فلسفیوں، مفکروں اور سائنسدانوں کے زیر اثر روایتی حکمت کو چیلنج کیا گیا۔ یہ استدلال کیا گیا تھا کہ کسی نظریے کو بھرپور تجرباتی تصدیق سے گزرنا چاہیے اور اسے تب ہی قبول کیا جا سکتا ہے جب وہ اس جانچ میں کامیاب ہو جائے۔ انسانی عقل اعلیٰ ہے اور اسے معاشی، سیاسی اور سماجی زندگی سے متعلق تمام معاملات میں رہنما کی حیثیت سے کام کرنا چاہیے۔ روایتی حکمت کے خلاف بغاوت کے اس رویے نے نئے خیالات کو کھلنے اور پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا اور اسی کا نتیجہ وقت کے ساتھ ساتھ صنعتی انقلاب کی صورت میں نکلا۔ تاہم باقی دنیا میں روایتی حکمت آج بھی وجود کے تمام پہلوؤں پر حاوی ہے اور یہ ان معاشروں کے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ ضروت اس امر کی ہے کہ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک تبدیلی لانے کے لئے جدیدیت کے نظریات پر عمل کریں ۔ ایک اور اہم عنصر جس نے صنعتی انقلاب میں اپنا کردار ادا کیا وہ یورپ کی مربوط اور قریبی جغرافیائی تعلق تھا۔ یعنی اگر کسی مفکر کے نظریات اس کے ملک میں قابل قبول نہ ہوں تو وہ آسانی سے کسی دوسرے ملک میں جا سکتا ہے۔ جب چرچ نے گلیلیو کی کتاب ” Discorsi”کو اٹلی میں سنسر کیا تو اس نے اسے ہالینڈ میں شائع کروا دیا۔ جب والٹیئر فرانسیسی حکومت کے زیر عتاب آ یا تو وہ سوئٹزرلینڈ چلا گیا۔ کارل مارکس اس وقت لندن چلا گیا جب اس کے فلسفیانہ خیالات جرمن حکام کے لیے ناقابل قبول ہو ئے۔ چنانچہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یورپ میں مفکرین کو اپنی رائے کے اظہار کی نسبتاً زیادہ آزادی حاصل تھی۔اس کے برعکس ایشیا اور افریقہ میں مختلف وجوہات کی بناء پر ایک ملک سے دوسرے ملک جانا تقریباً ناممکن ہے۔ ایشیائی اور افریقی ملکوں میں جب دانشوروں کے خیالات سرکاری طور پر قبول شدہ بیانیے کے مطابق نہیں ہوتے تو انہیں سختیوں اور ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صنعتی انقلاب جیسے واقعہ کو یورپی معاشرے کے رویے اور اہلیت سے بھی جوڑا جا سکتا ہے۔ یورپ ہمیشہ دیگر ثقافتوں سے تصورات درآمد کرنے کیلئے کھلا رہا ہے جب کہ مشرقی معاشروں میں اس طرزعمل کا فقدان ہے۔ مثلاً 15ویں صدی میں پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد مشرق وسطیٰ کے کچھ ممالک نے تین سو سال تک کتابیں چھاپنے سے انکار کر دیا تھا اور اس کے نتیجے کے طور پر نئے تصورات دنیا کے اس حصے میں محدود رہے۔ دوسری طرف یورپی معاشروں نے قرون وسطی کے دوران اور اس کے بعد عرب سکالرز کے تصورات کو بڑی دلچسپی سے قبول کیا۔ دوسرا، کسی ملک کی ترقی کے لیے صرف تصورات ہی اہم نہیں ہوتے بلکہ لوگوں میں ان تصورات کو اپنانے کی اہلیت ہونی چاہیے۔ یورپی معاشروں نے جب تبدیلی کے لیے مثبت رویے اور اہلیت دونوں کا مظاہرہ کیا تو اس کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر تکنیکی ترقی کی۔اس رویے کو پروان چڑھانے میں یورپی سیاسی اداروں نے بھی اپنا کردار ادا کیا۔ برطانوی معاشرہ ہمیشہ کلاسیکی لبرل ازم پر عمل پیرا رہا یعنی وہاں سماجی اور سیاسی معاملات میں حکومت کی مداخلت کم سے کم رہی۔اس سے نجی شعبے کو اپنا کردار ادا کرنے کا موقع ملتا ہے ،جب کہ مطلق العنان حکومتوں کے تحت معاشروں میں ایسا ممکن نہیں ہے۔ عصری دنیا میں ترقی پذیر معیشتوں کو کس طرح آگے بڑھا جائے اس حوالے سے دو ممکنہ لائحہ عمل ہیں۔ پہلا یہ کہ یورپی ماڈل کی پیروی اور کھلے پن اور جدت کے رحجان کو فروغ دیا جائے۔ اس کے لیے ان معاشروں کو روایتی طرز عمل ترک کرنا ہوںگے۔ دوسرایہ کہ وہ چینی اور کوریائی نظاموں کی پیروی کریں۔ چین اور کوریا نے زیادہ تر ٹیکنالوجیز ایجاد نہیں کی ہیں لیکن انہوں نے اپنی معیشتوں کوبڑے پیمانے پر پیداوار کی حامل بنایا ہے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس حکمت عملی نے چین اور کوریا کو دنیا کی طاقتور اور متحرک معیشتوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ پاکستان اپنی معیشت کو مستحکم کرنے اور آگے بڑھانے کے لیے چین اور کوریا جیسا طریقہ آزما سکتا ہے، اگر ایک بار ایسا کر لیا تو جدت زیادہ دور نہیں رہے گی تاہم اس کے لیے موجودہ اقتصادی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ صنعتی انقلاب برطانیہ میں کلاسیکی لبرل ازم کے تحت پروان چڑھا جہاں نجی کاروباری اداروں پر ریاست کا کنٹرول کم سے کم تھا۔ پاکستان کو ایک بہترین معاشی ماڈل کی طرف بڑھنا چاہیے، ریاست کو صرف سہولت کار اور ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے ٹیکس اصلاحات اور دیگر مراعات متعارف کرائی جائیں۔( بشکریہ، دی نیوز، ترجمہ:راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  اردو میڈیم یا انگریزی میڈیم ؟