درآمدی حجم مہنگائی کی وجہ

اساتذہ کی بروقت بھرتی کی ضرورت

محکمہ ابتدائی تعلیم کے تحت سرکاری سکولوں سے رواں سال کے دوران دس ہزار سے زائد اساتذہ اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو جائیںگے ، سب سے زیادہ اساتذہ سکینڈری سکولوں سے ریٹائر ہوںگے، یہ تعداد تقریباً 6 ہزار بنتی ہے، اس صورتحال کے بعد محکمہ تعلیم کے حکام کی جانب سے نئی بھرتیوں کا فیصلہ کیا گیا ہے محکمہ تعلیم کی جانب سے ریٹائر ہونے والے اساتذہ کی جگہ نئی اساتذہ کی بھرتی کا فیصلہ احسن اقدام ہے تاہم اس کو جتنی جلدی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا جائے اتنا ہی بہتر ہے، اس جدید دور میں تعلیم کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں ہے بالخصوص ابتدائی تعلیم جہاں سے بچوں کی بنیاد بننا شروع ہوتی ہے اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے، محکمہ تعلیم اور صوبائی حکومت ریٹائر ہونے والے اساتذہ کی جگہ بروقت بھرتی نہ کئے جانے کی صورت میں طالب علموں کا ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے جس سے بچنا بہت ضروری ہے۔ گزشتہ دو سال سے دنیا بھر کی طرح پاکستان میں جاری عالمی وبا کورونا کی وجہ سے پہلے ہی طالب علموں کا بہت زیادہ تعلیمی نقصان ہو چکا ہے اب مزید اس کا متحمل نہیں ہوا جاسکتا، ایک طویل عرصہ تک لاک ڈائون کی وجہ سے تعلیمی ادارے بند رہے گو کہ بچوں کو آن لائن تعلیم دی گئی مگر ایسے طالب علموں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جن کو آن لائن تعلیم کی سہولت حاصل رہی ،اب اگر رواں سال اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ریٹائر ہو جائے گی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اگر وقت پر بھرتیاں نہ ہو سکیں تو بچوں کی تعلیم کا حرج ہوگا، اس سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ محکمہ ابتدائی تعلیم ابھی سے اس بات کی منصوبہ بندی کرلے فوری طور پر ریٹائر ہونے والے اساتذہ کے سکیلز کے مطابق خالی اسامیوں کو مشتہر کرے، ٹیسٹ اور انٹرویوزکے مراحل کو مکمل کرے تاکہ جب یہ ریٹائر ہونے والے اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے سبق دوش ہو جائیں تو ان کی جگہ کو پر کرنے کیلئے نئے اساتذہ آجائیں، اس سے طالب علموں کا تعلیمی نقصان ہونے سے بچ جائے گا۔ خالی آسامیوں کو پر کرنے کیلئے صوبائی حکومت کی طرف سے بھرتیوں کا عمل جاری رہتا ہے لیکن یہ پراسس بسا اواقات اس قدر طویل ہو جاتا ہے کہ اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھنے لگتے ہیں ، ان خدشات کو مدنظر کر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔
صحت کارڈ کو مؤثر بنانے کی ضرورت
صحت کارڈ پر بیماریوں کے علاج کے پیکیج سے متعلق عدم معلومات اور عوام میں پائے جانے والے تحفظات کے ازالے کے لیے صحت سہولت پروگرام نے ہسپتالوں میں مفت علاج کی بیماریوں کی فہرست جاری کر دی ہے، تمام سرکاری و رجسٹرڈ نجی ہسپتالوں کو پابند بنایا گیا ہے کہ جاری کردہ فہرست کے مطابق انتظامات کیے جائیں۔ حکومت کی طرف سے یہ اقدام عوامی شکایات کے بعد اٹھایا گیا ہے، کیونکہ منتخب کردہ ہسپتالوں میں بعض بیماریوں کے علاج سے انکار کی شکایات موصول ہوئی تھیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو محکمہ صحت کا اقدام نہایت اہمیت کا حامل ہے، محکمہ صحت نے اگرچہ اپنے طور پر صحت کارڈ میں شامل بیماریوں کو تشہیری مہم کے ذریعے متعدد بار پیش کر دیا ہے، مگر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ متعلقہ ہسپتالوں میں دو طرح کے بینرز آویزاں کر دیے جائیں۔ ایک بینر پر لکھا ہو کہ یہاں صحت کارڈ پر علاج کی سہولت موجود ہے۔ یہ بینر ہسپتال کے داخلی دروازوں پر لگایا جائے اور اندرونی جگہوں پر بھی آویزاں کر دیا جائے، اس سے عوام کو معلوم ہو سکے گا کہ کون سا ہسپتال صحت کارڈ کے پینل پر ہے۔ اسی طرح جو ہسپتال پینل پر ہو اس کے او پی ڈی ایریا اور انتظار گار میں صحت کارڈ میں دستیاب سہولیات ، طریقہ کار اور بیماریوں کی فہرست آویزاں کر دی جائے، اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ عوام ڈاکٹرز حضرات یا متعلقہ ہسپتال کے عملہ سے بلاوجہ بحث و تکرار نہیںکریں گے۔ اگر ہسپتال کا عملہ انہیں صحت کارڈ میں درج سہولیات دینے سے انکاری ہو گا تو وہ اس کا ثبوت پیش کر سکیں گے۔ یہ اقدامات اس لیے ضروری ہیں کہ صحت کارڈ کی فراہمی ایک عظیم منصوبہ ہے جو تحریک انصاف کا اہم کارنامہ ہے اس کے ساتھ ساتھ ہر شخص کی ضرورت بھی ہے ۔
حکومت عوام کو علاج کی مفت سہولیات فراہم کرنے کے لیے خطیر لاگت خرچ کر رہی ہے، اس کے باوجود اگر عوام مفت علاج کی سہولیات سے محروم رہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود صحت کارڈ کو مؤثر نہیں بنایا گیا، سو عوام کی سہولیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے صحت کارڈ سے مستفید ہونے کے راستے میں حائل رکاوٹوں کو ختم کیا جانا چاہیے۔ محکمہ صحت نے بیماریوں کی فہرست جاری کر کے اہم قدم اٹھایا ہے ، اسی طرح تمام شکایات کا ازالہ ضروری ہے۔

مزید پڑھیں:  اچھا منصوبہ