درآمدی حجم مہنگائی کی وجہ

درآمدی حجم مہنگائی کی بڑی وجہ

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے یوم والدین کی تقریب کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کا اصل مقابلہ اپوزیشن سے نہیں بلکہ مہنگائی سے ہے، انہوں نے کہا کہ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی مہنگائی ضرور ہے مگر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت بہتر منصوبہ بندی کے تحت کام کر رہی ہے، حکومت کو عوام کی مشکلات کا ادراک و احساس ہے ، لیکن یہ مشکلات عارضی ہیں، کیونکہ حکومت عام آدمی پر مہنگائی کے اثرات کو کم سے کم کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے۔
حکومتی سطح پر مہنگائی کا ادراک کیا جانا بہت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ مسئلے کی تشخیص کے بعد ہی اس کا حل تلاش کیا جا سکتا ہے ، تاہم تحریک انصاف کے قائدین مہنگائی کو تسلیم کرنے کے حوالے سے کئی حصوں میں تقسیم دکھائی دیتے ہیں، فواد چوہدری، شہباز گل ، وزیر خزانہ حتیٰ کہ وزیر اعظم عمران خان سمیت دیگر رہنما متعدد بار اس امر کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان میں دیگر ممالک کی نسبت مہنگائی کم ہے، حکمران جماعت کے قائدین کی طرف سے اس طرح کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی تک مسئلے کی تشخیص نہیں ہو پائی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کو جانچنے کے حکومتی پیمانے اور اعداد و شمار الگ ہیں جبکہ عوام اسے دوسری نظر سے دیکھتے ہیں، ادارہ شماریات کے مطابق مہنگائی کی موجودہ شرح 13فیصد ہے، اس ضمن میں حکومت مؤقف اختیار کرتی ہے کہ چند ماہ پہلے کی نسبت یہ شرح نیچے آ رہی ہے، کورونا کے ایام میں چونکہ یہ شرح کافی بلند تھی اب دھیرے دھیرے اس میں کمی آ رہی ہے تو حکومت اسے سمجھ رہی ہے کہ واقعی مہنگائی میں کمی آئی ہے جب کہ عوام اسے دوسری نظر سے دیکھتے ہیں، کہ کچھ عرصہ قبل 30ہزار روپے میں ان کا گھریلو بجٹ بن جاتا تھا ، مگر اب 40ہزار روپے میں بھی ان کے لیے بجٹ تشکیل دینا آسان نہیں رہا ہے تو عوام کو مہنگائی میں اضافہ محسوس ہوتا ہے، ایسے حالات میں جب حکومت کی جانب سے مہنگائی میں کمی کی بات کی جاتی ہے تو عوام کی بڑی تعداد اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہوتی ہے، عوام کو محسوس ہوتا ہے جیسے حکومت کو عوام کے مسائل کا ادراک نہیںہے۔ جب حقیقی معنوں میں مہنگائی میں کمی واقع ہوتی ہے تو عام آدمی کی زندگی میں اس کی نمایاں تبدیلی آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ریاستوں میں عام آدمی کی مشکلات کو سامنے رکھ کر معاشی پالیسی ترتیب دی جاتی ہے، اس کے برعکس ہمارے ہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ معاشی پالیسی ترتیب دینے میں عام آدمی کی مشکلات کو مدِنظر نہیں رکھا جاتا ہے۔ معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ سے پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا، کیونکہ یوکرین جنگ عالمی مالیاتی اور اجناس کی منڈیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہے، جس کے پاکستان پر بھی گہرے معاشی اثرات مرتب ہوںگے۔ عالمی سٹاک مارکیٹسں شدید مندی کا شکار ہوئی ہیں، ایشیائی مارکیٹسں بھی نو فیصد تک گر گئی ہیں ، جنگ شروع ہونے کے بعد چینی ، گندم ، خام تیل ، کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، سونے کی قیمت بڑھی ہے جب کہ خام تیل کی قیمت کو گذشتہ سات سال کی بلند ترین سطح پر قرار دیا جا رہا ہے۔
روس سعودی عرب کے بعد خام تیل کادوسرا جب کہ قدرتی گیس کا سب سے بڑا برآمدکنندہ ہے۔ روس نے 2021ء میں 110ارب ڈالرکاخام تیل،69ارب ڈالرکی تیل کی مصنوعات اور 65 ارب ڈالرکی قدرتی گیس برآمدکی تھی۔ روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں بڑھی ہیں، خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ پاکستان کو مہنگائی کی صورت میں متاثر کرے گا اور پاکستان کے درآمدی بل میں اضافے کے باعث روپے کی قدر پر دباؤ بڑھ جائے گا، اس جنگ کی وجہ سے پاکستان کے درآمدی بل میں پانچ سے 20 ارب ڈالرکا اضافہ متوقع ہے۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمت میں 10ڈالر فی بیرل اضافہ ہوتا ہے تو اس سے پاکستان کا درآمدی بل ماہانہ بنیادوں پر 15 کروڑ ڈالر بڑھ جائے گا۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے پاکستان میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 180 روپے فی لٹر تک جانے کا امکان ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان اپنی ضروریات کا بڑا حصہ درآمد کرتا ہے ، درآمدی مصنوعات کا حجم زیادہ ہونے کی وجہ سے ہماری مشکلات بھی بڑھ رہی ہیں، ایسے حالات میں کسی بھی حکومت کے لیے سارا بوجھ اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے، آج تحریک انصاف کی حکومت بسیار دعوئوں کے باوجود بھی عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب نہیں ہو پائی ہے تو اس کی بنیادی وجہ ہمارے دیرینہ مسائل ہیں جس کی طرف کسی بھی حکومت میں توجہ نہیںدی گئی ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر کھانے پینے اور عام استعمال کی مصنوعات بھی درآمد کی جاتی ہیں ، تحریک انصاف کی حکومت درآمدی حجم کو کم کرنے کی اپنے تئیں کوشش کر رہی ہے لیکن ہنوز منزل دور ہے، کیونکہ عوام برانڈڈ مصنوعات کے عادی ہو چکے ہیں ،جب تک حکومت کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہو گی تو حکومت کی معاشی پالیسی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے گی، عوامی حمایت کے حصول کے لیے ضروری ہے کہ مقامی سطح پر تیار ہونے والی مصنوعات کو فروغ دیاجائے ، ہمارے نصف مسائل کا تعلق درآمدی مصنوعات سے ہے، اس طرف خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  آلوچے، آڑو کے باغات اور آلودگی