سڑکوں پر لوٹ مار کی وارداتیں

چند دن قبل کراچی میں قیام پذیر اپنے ایک دوست سے ٹیلی فون پر بات ہوئی تو بتانے لگا کہ رات کو اُس کے پڑوسی تقریب سے واپس آ رہے تھے ، ایسے میں دو موٹر سائیکلوں پہ سوار ڈاکوؤں نے راستہ روک کر اُ ن سے نقدی ،زیوارات اور موبائل فون لیے اور فرار ہو گئے۔ یہ کوئی ویران سڑک نہ تھی بلکہ ٹریفک بھی رواں دواں تھی۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ کراچی میں سڑکوںاور شاہراہوں پہ ڈکیٹی اور لوٹ مار کی وارداتیں ایک عرصہ سے جاری ہیں۔اِن وارداتوں میں کئی افراد مزاحمت پر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔حال ہی میںایک سینئر صحافی ڈاکووں کی فائرنگ سے ہلاک ہواجبکہ ایک غیر مُلکی سے تو ڈاکو نے پولیس کے بھیس میں چیکنگ کے بہانے تلاشی لیتے ہوئے رقم چھین لی۔سوشل میڈیا پر ایسی کئی وڈیو عام ہو چکی ہیں جن میں ڈاکوؤں کو بے خوفی سے لوٹ مار کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ ریاستی اداروں کو سہولتیں فراہم کرنے کے باوجود اور ان کی موجودگی میں سڑکیں اور گلیاں غیر محفوظ ہیں۔ یہ وارداتیں قانون نافذکرنے والے اداروں کی ناکامی کو ظاہر کرتی ہیں۔ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں رہنے والوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ وہ گزشتہ چار دہائیوں سے امن وامان کی بد ترین صورتحال سے دوچار ہیں۔ اب تو یہ حالت ہے کہ باقاعدہ ناکہ لگا کر راہ چلتی گاڑیوں میں بیٹھے لوگوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ ڈکیتی اوررہزنی کی وارداتو ں میں مسلسل اضافہ سے جہاں کراچی کے شہری پریشان ہیں وہاں وہ پولیس کی کارکردگی سے بھی اس قدر مایوس ہو چکے ہیں کہ ان وارداتوں کی شکایت کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے۔
میرے ایک عزیز کئی سال پہلے کراچی میں اپنا کاروبار چھوڑ کر پنجاب چلے آئے۔ اُنہیں یہی خدشہ تھا کہ آنے والے دنوں میں یہاں لوگ عدم تحفظ کا شکار ہوں گے کیونکہ ہر علاقہ میں چور اور ڈاکو اپنے اپنے گروپ بنا کر موقع کی مناسبت سے لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرتے پھرتے ہیں۔ اب یوں لگتا ہے کہ وہی گروپ اور اس میں شامل ڈاکو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ وارداتیں کر رہے ہیں اور عوام کے لیے عذاب بن چکے ہیں۔ رینجرز اورپولیس کے ہوتے ہوئے اس رہزنی اور لوٹ مار پہ قابو نہ پانا تعجب خیز ہے۔ حالانکہ اسی کراچی میں پولیس اور رینجرز نے دہشت گردی،بھتہ خوری اور قتل وغارت گری پہ بڑی حد تک قابو پا لیا تھا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اکنامسٹ کے ایک سروے کے مطابق کراچی دنیا کا دوسرا غیر محفوظ ترین شہر بن گیا ہے ۔ ایک ہی د ن میں سڑکوں اور شاہراہوں پہ درجنوں وارداتیں ہورہی ہیں جن میں شہری لٹ بھی رہے ہیں اور اپنی جان سے بھی جا رہے ہیں۔ دنیا میں کراچی سے بھی بڑے شہر موجود ہیں لیکن وہاں شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر سطح پر ایک جامع انتظامی نظام وضع کیا جاتا ہے۔ سیکیورٹی ادارے ہمہ وقت چوکس رہتے ہیں اور عوام کو آسانیاں فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش اُن کے فرائض میں شامل ہوتی ہے۔ کراچی میں جو حالات پیدا ہوئے ہیں وہ سراسر انتظامی کمزوریوں کا نتیجہ ہے۔
ایک اخباری اطلاع کے مطابق سندھ کی حکومت نے کراچی میں ہونے والی بدامنی اور رہزنی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے پیش نظر فوری اور ٹارگٹڈ آپریشن کا فیصلہ کیا ہے۔ موجودہ حالات کا تقاضا بھی یہی ہے کہ حکومت جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آہنی ہاتھ استعمال کرتے ہوئے عوام کی جان ومال کا تحفظ کرے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں پائی جانے والی خرابیوں کو دور کرے۔ عوام کو سندھ کی حکومت سے شکایت یہ ہے کہ اِن وارداتوں میں ڈاکوؤں کی بے خوفی، اعتماد اور دیدہ دلیری دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ انہیں متعلقہ اداروں کی پشت پناہی حاصل ہے اور حکومتی ارباب اختیار اس ضمن میں ٹھوس اقدامات نہیں اُٹھا رہے۔ جس کے سبب اب ہر شہری کو گھر سے باہر نکلتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے۔
کراچی کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں سے بھی اب کہیں کہیں ایسی رہزنی اور لوٹ مار کی خبریں آرہی ہیں۔ اسلام آباد کی مارکیٹوں ،گھروں کے سامنے سے کار چوری کی کئی وارداتیں رپورٹ ہو چکی ہیں۔ ہمارے ایک قاری نے لکی مروت سے اطلاع دی ہے کہ اس چھوٹے شہر میں وہ جب دوائی لے کر میڈیکل سٹور سے باہر آیا توکوئی اس کی موٹر سائیکل لے جا چکا تھا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے تو کراچی میں ہونے والی وارداتوں پہ یہ موقف اختیار کیا ہے کہ پاکستان کی معاشی بد حالی کا محرک بندر گاہی شہر میں بڑھتے ہوئے رہزنی کے واقعات ہیں۔ مگر لکی مروت اور اس جیسے دیگر چھوٹے شہروں میں موٹر سائیکلوں کی چوری کو کیا نام دیا جائے اور اسے مُلک کے کس بڑے مسّلہ کا سبب قرار دیا جائے۔ معاشی بد حالی اگر لوگوں کو ان جرائم میں ملوث ہونے پر مجبور کرتی ہے تو پھر اِن جرائم کو روکنے والے کہاں ہیں ۔ ہمارے مُلک میں تو فقط”امن و امان ”ہی کو اولیت حاصل ہے۔ فنڈ اور سہولتیں بھی میسر ہیں۔ ہر اخبار امن وامان برقرار رکھنے والوں کی تصاویر سے بھی مزئین ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت میں کراچی کے شہری ہوں یا دیگر شہروں میں رہنے والے ہوں، سب عدم تحفظ کا شکار ہیں۔

مزید پڑھیں:  بجلی گرانے کا تسلسل