”بھارت کی دوغلی خارجہ پالیسی”

روس کا یوکرین پر جنگ مسلط کرنے کے بعد اس وقت پوری مغربی دنیا اور امریکہ پریشانی کے عالم سے دو چار ہے کیونکہ جس سوویت یونین کو اس نے1991 میں دفنا دیا تھا اسے اب ولادیمیرپوٹن دوبارہ زندہ کرتے ہوئے دکھائے دے رہے ہیں۔ مگر امریکہ کی حیرانی اور خوف صرف یہی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس بات پر بھی اسے سکتے میں جانا پڑا جب اس کے ایک اہم اتحادی ملک بھارت نے اس کی پیٹ میں چھرا گھونپا اور سلامتی کونسل میں روس کے خلاف امریکی قرارداد میں ووٹنگ سے اجتناب کیا۔ بھارت جو یوکرین پر روسی حملے سے قبل امریکہ کی بولی بولتا تھا آخر کیوں اسے اچانک امریکہ سے بیوفائی کرنا پڑی ؟ کیا اس کی یہ دوغلی خارجہ پالیسی مستقبل میں اسے چین اور پاکستان جیسے مشترکہ خطرات سے نمٹنے میں کارآمد ثابت ہوگی ؟جنگ عظیم دوئم اور تقسیم ہند کے بعد جب دنیا دو کمیونسٹ اور کیپٹلسٹ دھڑوں میں تقسیم ہوئی تو ان میں ایک دھڑا وہ بھی تھا جو غیر جانبداری کی پالیسی پر عمل پیرا تھے اور اس دھڑے کو اس وقت کے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو اور یوگوسلاویہ کے صدر جوزف بروز ٹیٹو لیڈ کر رہے تھے۔ گوکہ نان الائنڈ موومنٹ یعنی غیر جانبدار وابستگی کی تحریک کا باقاعدہ قیام1961 میں عمل میں آیا تھا مگر ان دو سربراہان نے1950میں ہی اعلان کردیا تھا کہ یہ کسی بھی عالمی طاقت سے وابستگی ظاہر نہیں کریں گے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یوگوسلاویہ جو کہ خود بھی ایک کمیونسٹ ریاست تھی مگر جوزف بروز ٹیٹو نے خود کو سوویت یونین سے علیحدہ رکھا۔ اس کے برعکس جواہر لعل نہرو نے 1950میں ہونے والی اقوام متحدہ کی سالانہ جنرل اسمبلی کی تقریر میں تو بڑھ چڑھ کر بھارت کو غیر وابستہ رکھنے کے دعوے کئے مگر تاریخ نے دیکھا کہ بھارت نے غیر وابستگی کا مکھوٹہ پہن کر روس اور امریکہ دونوں سے مراعات حاصل کئے۔ چاہے وہ65کی جنگ ہو یا پھر 71کی جنگ یا پھر افغانستان میں روس نواز کمیونسٹ حکومت کی پشت پناہی کرنا ہو بھارت نے کھل کر پاکستان کے خلاف سوویت روس کی مدد حاصل کی جبکہ امریکہ یہ سوچ کر پاکستان کی مدد کو آنے سے ہچکچاتا رہا کہ کہیں بھارت روس کے بلاک میں نا شامل ہوجائے۔ چنانچہ حقیقت تو یہ تھی کہ بھارت روس کا سب سے بڑا اتحادی تھا جو غیر جانبداری کے نام پر امریکہ اور روس دونوں کو ورغلانے کی پالیسی پر گامزن رہا۔
2001کے بعد دیکھنے میں یہ آیا کہ بھارت اور امریکہ میں قربتیں پیدا ہونا شروع ہوئی۔ یوں تو بھارت پر امریکہ کا نظرِ کرم واجپائی کے دور سے ہی شروع ہوا تھا کیونکہ جب بھارت نے 1998 میں ایٹمی دھماکے کیئے تو امریکہ اور مغرب کی جانب سے محض برائے نام پابندیاں اس پر لگائی گئیں۔ ایک طرف امریکہ نے نام نہاد پابندیوں کا ڈھول پیٹا جبکہ دوسری طرف اسی کے ملک کے سرمایہ کار اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری بھی کرتے رہے۔ یہی وہ دور تھا کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات اب مزید اونچائی کی جانب جا رہے تھے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ بھارت روس سے بھی اپنی پرانی قربت جاری رکھے رہا اور روس سے دفاعی سازو سامان کی خریداری جاری رکھی۔ شاید واشنگٹن کو تب ہی سمجھ جانا چاہیے تھا کہ بھارت کو مالی طور پر مضبوط کرنے سے قبل اس کی ایک ڈور اپنے پاس ہی رکھنی چاہیے تھی کیونکہ بھارت کی دوغلی پالیسی ایک اسے ہی نقصان پہنچانے والی تھی۔ مگر امریکہ نے اس کے برعکس بھارت میں سرمایہ کاری سمیت ( لیمووا، کومکاسا ‘ انڈسٹری سکیورٹی ایگریمنٹ)جیسے کئی سکیورٹی معاہدے کئے جبکہ بھارت میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے وہاں لاکھوں ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا کئے۔ نا صرف یہ بلکہ بھارتی شہریوں کو امریکہ میں نت نئی ٹیکنالوجی کا ہنر بھی سکھا دیا جو آج وہ بھارت منتقل کرکے امریکہ کو ہی پیچھے چھوڑ رہے ہیں۔ مودی کی حکومت جب 2014میں قائم ہوئی تو تب بی جے پی کا جھکائو امریکہ کی طرف زیادہ دیکھا گیا۔ اس وقت کے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ انڈیا کے دورے پر آئے جبکہ نریندر مودی امریکہ میں”ہاڈی مودی ”سیاسی جلسوں میں امریکی صدر کو دعوت دیکر یہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ بھارت اور امریکہ کے تعلقات کس قدر گہرے ہیں۔ چین کے خلاف بننے والے قواڈ گروپ میں بھی بھارت نے امریکہ کو یہ باور کرا ہی دیا تھا کہ بھارت امریکہ کا ایک بڑا اتحادی ہے۔ تو کیا وجہ ہے کہ بھارت نے اب اچانک ارادہ بدل کر سلامتی کونسل میں روس کے خلاف ووٹ کرنے سے اجتناب کیا ؟اس کے ممکنہ طور پر تین وجوہات ہوسکتے ہیں۔ پہلا یہ کہ بھارت میں اسوقت ریاستی انتخابات جاری ہیں اور بھارتی عوام میں روس کو بھارت کا ایک دیرینہ دوست سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں اگر مودی حکومت روس کے خلاف ووٹ کرتی تو اس کے اثرات انتخابی نتائج پر بھی مرتب ہو سکتے تھے۔ دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ عمران اور پوٹن کے بڑھتے ہوئے مراسم سے بھی نئی دہلی میں بے چینی پائی جاتی تھی کیونکہ عمران خان ابھی روس کے دورے پر ہی تھے کہ نریندر مودی نے صدر پوٹن سے ٹیلیفونک رابطہ کیا۔ تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ امریکہ اور نیٹو نے جس طرح سے یوکرین کو بیچ راہ میں روس کے رحم و کرم پر چھوڑا اس سے بھارت کے اس خدشے کو ہوا اور مل گئی کہ اگر کل کو چین اور پاکستان بھارت پر حملہ کرتے ہیں تو امریکہ کا رسپانس تب بھی شاید یہی ہوگا کیونکہ2020میں لداخ کے علاقے گلوان وادی پر چینی قبضے کے بعد بھی امریکہ نے سرد مہری کا مظاہرہ کیا تھا۔ بہرحال وجوہات جو بھی ہو مگر موجودہ حالات میں بھارت جن دو کشتیوں پر سوار ہے اس سے اسے بائی پولر طاقتوں کی سرد جنگ میں فائدہ تو حاصل ہوا مگر یہ اس کے لئے موجودہ دور میں دیرپا مفید ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے پڑوس میں ہی ابھرتی ہوئی ایک اور طاقت جنم لے چکی ہے جس کے ساتھ پہلے ہی اس کا سرحدی تنازع ہے۔ ایسے میں بھارت کا زیادہ دیر دوغلی پالیسی جاری رکھنا اس کے مفاد میں نہیں ہوگا۔

مزید پڑھیں:  افغانستان سے ایک بار پھر مطالبہ