روس یوکرائن جنگ کا نازک موڑ اور اقوام عالم کی ذمہ داری

روس اور یوکرائن کی جنگ نازک موڑ پر آگئی ہے جس سے اقوام عالم کے امن کا بھی متاثر ہونے کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے بڑھتے دبائو کا شکار روس کے صدر ولادمیر پیوٹن کی جانب سے ملک کی نیوکلیئر مزاحمتی فورسز کو ہائی الرٹ پر رہنے کا حکم سنگین صورتحال کا باعث ہے۔پیوٹن کا کہنا ہے کہ انہوں نے جوہری فورسز کو ہائی الرٹ پر رہنے کا حکم مغربی طاقتوں کے رویے کو دیکھ کر دیا ہے۔پیوٹن کے اس اعلان کے بعد امریکی حکام نے خبردار کیا ہے کہ روس کے صدر کے اس فیصلے سے صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ادھر نیٹو کے سیکریٹری جنرل نے جوہری مزاحمتی فورسز کو الرٹ پر رکھنے کے پیوٹن کے حکم کو غیرذمے دارانہ رویہ قرار دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ اس بیانیے کو یوکرائن میں جاری زمینی کاروائی کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو صورتحال انتہائی سنگین شکل اختیار کر جاتی ہے۔یورپی یونین نے روس کے ساتھ ساتھ اس کے اتحادی بیلاروس پر بھی پابندیاں لگانے پر اتفاق کیا ہے۔فن لینڈ نے بھی یورپی یونین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے روس کے خلاف یوکرائن کو ہتھیاروں کی فراہمی پر رضامندی ظاہر کردی ہے۔روس اور یورپی سرحد پر واقع ملک یوکرائن کے درمیان لڑائی کے دوران صدر پیوٹن کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کو ہائی الرٹ کرنا اور یوکرائن کو یورپی ممالک کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی اور منتقلی جبکہ روس کے خلاف بڑے پیمانے پر اقتصادی پابندیوں سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے یہ ایک عالمی تنازع اور خطرناک صورتحال پیدا ہونے کا باعث امر بن چکا ہے اس صورتحال میں اقوام عالم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کم سے کم دونوں ملکوں کے درمیان وقتی صلح اور فائر بندی کے لئے اپنی کوششیں تیز کریں تاکہ لڑائی کے طول پکڑنے اور کشیدگی کے عالم میں ممکنہ جوہری تصادم اور تیسری عالمی جنگ کے خطرات سے دنیا کو بچانے کے لئے بروقت اقدامات کئے جا سکیں۔اس ضمن میں روس کو یوکرائن میں حملوںسے روکنے کی سب سے بڑی ذمہ داری اقوام متحدہ پر عائد ہوتی ہے لیکن ویٹو پاور کے استعمال اور عالمی طاقتوں کی اسے عضو معطل بنائے رکھنے کے عمل کے باعث اس کا کردار بھی سوالیہ نشان بن چکا ہے اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی جانب سے سلگتے ہوئے مسائل سے چشم پوشی اور اصولی موقف اختیار کرنے میں پہلو تہی کا رویہ دنیا کے امن کے لئے خطرات کا باعث بن رہا ہے دیکھا جائے تو دنیا کا امن بتدریج ایک سے بڑھ کر ایک خطرات کی طرف بڑھتا جارہا ہے خاص طور پر یوکرائن کا تنازعہ ان خطرات میں سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے اس تنازع کے باعث تصادم کا جو ماحول بن رہا ہے اس سے بڑے پیمانے پر جنگ چھڑنے کے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے امر واقع یہ ہے کہ یہ صورتحال اچانک پیدا نہیں ہوئی بلکہ یکے بعد دیگرے پیش آنے والے واقعات اور صورتحال سے تصادم کا واضح خطرہ نظر آرہا تھاجس کا بروقت ادراک اور اس سلسلے میں کہیں سے کوئی بامعنی کوشش نظر نہیں آئی دنیا یوکرائن سرحد پرروسی فوجوں کے اجتماع اور روس کی افواج کے یوکرائن میں داخلے تک خاموشی تماشائی بنی رہی۔جاری صورتحال میںروس کو عسکری لحاظ سے تو گھیرنے کی کوشش ممکن نہیں البتہ روس کے اقتصاد پر ضرب لگا کر اسے مشتعل ضرور کیا جارہا ہے جس کے باعث روس جوہری تصادم کی دھمکیوں کا عندیہ دے رہا ہے یہ صورتحال پوری دنیا کے لئے باعث تشویش ہونی چاہئے اور اس کے اثرات جس طرح پوری دنیا کو متاثر کریں گے اس سے بچائو کی بہتر صورت کشیدگی میں کمی اور تصادم کو روکنے اور آگ پرپانی ڈالنا ہے۔ابھی روس ‘ یوکرائن تنازع کی شدت کے چار پانچ روز ہی گزرے ہیں کہ تیل اور گیس کی قیمتوں میں اچانک اضافے کی صورت میں اس کے اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔یورپی ممالک کی روس پر پابندیوں کے اثرات سے صرف روس ہی متاثر نہیں ہو گا بلکہ یورپ کی 41فیصد گیس اور 27فیصد خام تیل بھی روس سے آتا ہے ایسے میں ان پابندیوں کے اثرات سے خود یورپ بھی متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکے گایوں روس کے ساتھ کشیدگی اور پابندیوں کے اثرات توانائی کی منڈیوں میں شدید عدم توازن اور بگاڑ کا سبب بنیں گے ۔جس کے اثرات پورے دنیا کی معیشت پر مرتب ہوںگے جو پہلے ہی کورونا وباء کے باعث مشکلات کا شکار ہے اگرچہ بظاہر اس معاملے کے دو فریق روس اور یوکرائن ہی ہیں لیکن بادی النظر میں یورپی یونین اور نیٹو کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیاجاسکتا جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ متنازع معاملات کو میدان جنگ کے بجائے مذاکرات کی میز پرطے کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وزیراعظم پاکستان عمران خان حملے کے وقت روس میںموجود تھے جنہوں نے روسی صدر کو اس ضمن میں تحمل سے کام لینے کا مشورہ دیا جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے یوکرائنی ہم منصب کو فون کرکے پاکستان کی جانب سے معاملے کو مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔عالمی برادری کی جانب سے روسی صدر کے جوہری فورسز کو تیاری کا حکم دینے کی مذمت کافی نہیں یورپی ممالک کی جانب سے بھی یوکرائن کو اسلحہ کی فراہمی جنگ کو ہوا دینے کے مترادف ہے ۔اس کا بھی نوٹس لیا جانا چاہئے جو لڑائی کو ایندھن کی فراہمی کا باعث امر ہے یوکرائن میں روسی فوج کے خلاف بڑھتی مزاحمت سے جنگ طول پکڑنے کا خطرہ ہے اور دنیا میںجس طرح طویل گوریلا جنگیں لڑی گئیںاس سے خطرہ ہے کہ یورپ کی سرحد پر اب اس طرح کی جنگ لڑی جائے گی جس کے اثرات سے یورپی ممالک بھی محفوظ نہیں رہ سکتے۔بنا بریںبہتری اسی میں ہے کہ اس معاملے کے براہ راست اور بالواسطہ فریق مفادات کی بجائے دنیا کے امن کو ترجیح دیں اورلڑائی بند کراکے معاملہ مذاکرات کے ذریعے طے کرنے کی اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔

مزید پڑھیں:  افغانستان سے ایک بار پھر مطالبہ