بڑے ریلیف کا اعلان

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دور جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
وزیراعظم عمران خان کی جانب سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں10روپے کمی کے اعلان کے بعد وزارت خزانہ کی جانب سے باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔اوگرا نے28فروری کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں10روپے فی لیٹر اضافے کی تجویز دی تھی لیکن وزیراعظم نے نہ صرف اس کو رد کیا بلکہ صارفین کو ریلیف کے لیے محدود موقع کے باوجود قیمتوں میں10روپے کمی کا اعلان بھی کیا۔قبل ازیں15 فروری کو حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرتے ہوئے پٹرول فی لیٹر مزید12روپے 3پیسے مہنگا کردیا تھا۔وزیر اعظم نے اپنے خطاب میںعلاوہ ازیں بھی مختلف شعبوں میں رعایت اور سہولیات کا اعلان کیاجو عوام کے لئے خوشگوار حیرت کا باعث ہے جس سے قطع نظر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مراعات کے لئے اچانک گنجائش کہا ںسے نکل آئی اور ان پر عمل درآمد کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ وزیر اعظم نے پٹرول اور بجلی کی قیمتیں کم کرنے کے لئے جن سبسڈیز کا اعلان کیا ہے وہ قرض سے دی جائے جو ممکنہ طور پر شہری سود اور کرنسی کی قدر میں کمی کی صورت میں ادا کریں گے یوں یہ ایک ہاتھ سے دینے اور دوسرے ہاتھ سے واپس لینے کا مصداق نہ ثابت ہو۔علاوہ ازیں یہ امر بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ آئی ایم ایف کے دبائو پر حکومت نے جو اقدامات کئے تھے جس میں پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ خاص طور پر قابل ذکر تھا اب اسی مد میں کمی آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے سے انحراف ہے اس صورتحال سے کیسے نکلا جائے گا ماہرین کے مطابق ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی اور دیگر اخراجات میں بچت کے ساتھ وزیر اعظم کے اعلان کردہ امدادی اقدامات کے اثرات کو جذب کرنے کے لیے جون تک4ماہ کے دوران حکومت کے لیے تقریباً 2کھرب37ارب روپے لاگت آئے گی۔وزیراعظم کی تقریر کے لیے پالیسی اقدامات کو حتمی شکل دینے میں شامل حکام کے مطابق امدادی پیکج کی مالیاتی لاگت چار طریقوں سے پوری کی جائے گی۔ان میں ترقیاتی اخراجات میں کمی، حکومت کے زیر ملکیت کارپوریٹ اداروں کے منافع کا رخ موڑنا، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)کی جانب سے ایک ارب 40 کروڑ ڈالر کی ہنگامی امداد میں سے خرچ ہونے سے بچ جانے والا فنڈ اور حکومت کے پانچ کھرب50ارب روپے کے منی بجٹ میں فراہم کردہ کشن شامل ہیں۔دوسری جانب ان اقدامات سے مالیاتی خسارے کی حد6.9فیصد پر اثر نہیں پڑے گا جس کا تخمینہ معیشت کی حالیہ بحالی کے بعد جی ڈی پی حجم میں اضافے کے تناظر میں آئی ایم ایف پروگرام کے تحت لگایا گیا۔وزیر خزانہ کے ترجمان مزمل اسلم کا کہنا تھا کہ انہیں معلوم نہیں کہ آئی ایم ایف امدادی اقدامات پر کیا رد عمل دے گا لیکن اسے کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے کیونکہ ہم مالیاتی خسارے میں اضافہ نہیں کریں گے اور حدود میں رہتے ہوئے اخراجات میں ایڈجسٹ کریں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر شعبدہ بازی ممکن تھی تو حکام نے اس طریقے سے حکومت کو پہلے ہی آگاہ کیوں نہ کیا اور مہنگائی کے باعث عوام کو پریشان اور حکومت کے بدنام ہونے کا انتظار کیوں کیا۔ ایسا نہ ہو کہ وقت آنے پر یہ سب افسانے ہی ثابت ہوں جس طرح بجٹ میں مراعات کا تو اعلان کیا جاتا ہے لیکن اس کے اثرات سال بھر نظر نہیں آتا بلکہ معاملہ الٹ ہی ہوتا ہے عوام کو ریلیف نہیں ملتی اور بوجھ میں سال بھر اضافہ ہی ہوتا ہے ۔ بہرحال وقت آنے پر معلوم ہو گا کہ ایک ہاتھ سے دے کر دوسرے ہاتھ سے چھینے کی شعبدہ بازی کی گئی ہے یا پھر واقعی عوام کو ریلیف کا خوشگوار احساس عملی طور پر ملتا ہے اس سب کا انحصار آنے والے دنوںمیں آنے والی صورتحال پربھی ہے ۔صورتحال جو بھی ہو وزیر اعظم کا اقدام اور اعلان عوام کے لئے تو یقینا اطمینان کا باعث امر ہے بشرط یہ کہ اس کے اثرات کو اسی طرح عوام تک کامیابی اور پراثر طریقے سے منتقل کیا جائے جس طرح بجلی ‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات فوری طور پر عوام تک منتقل ہوتے آئے ہیں۔وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں اقتصادی ترقی کی شرح کے حوالے سے جودعوے کئے ہیں ماہرین کواس سے اتفاق نہیںبلکہ ان کو سٹیٹ بینک’ وزارت خزانہ اور آئی ایم ایف کے اعداد و شمارکے منافی قرار دیتے ہیں۔وزیر اعظم کے تازہ خطاب اور اس کے اعلانات کو بعض مبصرین وزیر اعظم کے الیکشن موڈ میں جانے سے تعبیر کیا ہے اس وقت ملکی صورتحال سے بھی اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ملک میں سیاسی تبدیلی کے امکانات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔وزیر اعظم نے جن مراعات اور سہولیات کا اعلان کیا ہے اس کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے اگر موجودہ حکومت برقرار رہتی ہے توحکومت ان اعلانات پرعملدر آمد کیسے کروا پائے گی اور آئندہ بجٹ تک یہ سب کیسے ممکن ہو گا۔یا پھر آمدہ دنوں میں اس کی ذمہ داری کسی اور پرعائد ہونے کاامکان ہے ۔بہرحال ان تمام عوامل سے قطع نظرموجودہ حالات میں جب روس یوکرائن تنازع کی وجہ سے شدیدعالمی تنائو اور بے یقینی کی فضا میں توانائی کی قیمتوں میں اضافے کابڑھا امکان ہے پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہا تھا ایسے میں یہ تخفیف بڑا ریلیف ہے اس سے کم از کم فروری کے دوسرے ہفتے کے دوران قیمتوں میں جو بڑا اضافہ کیا گیا تھا کم از کم اس کے اثرات کم ہوں گے ۔ وزیر اعظم کی جانب سے مراعات کے بعد یوٹیلٹی بلز میں کمی کے باعث مہنگائی میں بھی کمی کی توقع ہے جس سے عام آدمی پرمثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔وزیر اعظم کے اعلانات پرعملدرآمد کے امکانات سے قطع نظر یہ وقتی ریلیف یقینا بڑا ریلیف ہو گا لیکن عوام کو حقیقی اور بڑا ریلیف دینے کا تقاضا ہے کہ وقتی طور پر ان کا بوجھ ہلکا نہ کیا جائے بلکہ طویل المعیاد منصوبہ بندی کے نتیجے میں ملک کو حقیقی ترقی سے ہمکنار کرکے عوام کو مستقل ریلیف دینا اصل کامیابی ہو گی۔

مزید پڑھیں:  بجلی گرانے کا تسلسل