روس اور امریکہ کے درمیان پھنسا ہوا بھارت

روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین پر ہونے والی کھینچا تانی جب سفارتی محاذ تک جا پہنچی اور امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روسی حملے کی مذمت میں ایک زوردار قرارداد پیش کی تو نتائج خاصے حیرت انگیز رہے ۔امریکہ کو یہاں منہ کی کھانا پڑی ۔سوویت یونین جو سلامتی کونسل کے ویٹو پاور رکھنے والے ملکوں میں شامل ہے اپنے خلاف اس قرارداد کو حسب توقع ویٹو کر بیٹھا اور یوں یہ قرارداد محض مشاورتی اور غیر متفقہ ہو کر رہ گئی ۔چین نے موقع سے غائب ہوجانے کی پالیسی اختیار کی مگر اس کے ساتھ ہی غیر حاضر رہنے والوں میں متحدہ عرب امارات اور بھارت شامل تھے ۔سب سے زیادہ حیرت بھارت کی غیر حاضری پر ہوئی ۔صرف گیارہ ارکان سلامتی کونسل نے قرارد اد کے حق میں ووٹ دیا ۔ویٹو کے استعمال کے بعد قرارداداپنی اہمیت کھو چکی تھی۔اس موقع پر امریکہ کی سفیر مس لنڈا تھامس نے ویٹو کی بنیاد پر جذبات بھاشن یوں دیا”تم قرارداد کو ویٹو کرسکتے ہو ہماری آواز کو ویٹو نہیں کرسکتے۔تم سچ کو ویٹو نہیں کر سکتے ۔ہمارے اصولوں کا ویٹو نہیں کر سکتے۔یوکرینی عوام کو ویٹو نہیں کر سکتے ۔اقوام متحدہ کے چارٹر کو ویٹو نہیں کر سکتے”۔یوں یہ” ویٹو نامہ ”پڑھ کر امریکہ نے اپنا حق ادا کردیا ۔ یوں لگتا ہے کہ بھارت نے امریکی چھتری تلے ہونے کی وجہ سے یوکرین کو خوب سبز باغ دکھا رکھے تھے اور روس کے حملہ نہ کرنے اور اپنا اثر رسوخ استعمال کرنے کی یقین دہانیاں کر ارکھی تھیں ۔جب وقت آیا تو بھارت غیر جانبداری کا چولا پہن کر حالات سے الگ ہوگیا ۔سلامتی کونسل میں قرار داد پیش کرنے سے پہلے یوکرینی وزیر خارجہ نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کے ساتھ رابطہ کیا اور مدد طلب کی مگر یوکرینی وزیر خارجہ کو تسلی بخش جواب نہ مل سکا اور یوں دوسرے روز یوکرینی صدر زلنسکی نے مودی سے رابطہ کیا مگر جواب دوبارہ ”ناں ” ہی میں ملا اور یوں بھارت نے سلامتی کونسل کے اجلاس سے غیر حاضر رہ کر دونوں طرف خوش کرنے اور توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی ۔خود بھارت میں یہ سوا ل اُٹھایا جا رہا ہے کہ بھارت کب تک خود کو اس صورت حال میں غیر جانبدار رکھ سکتا ہے ؟۔ایک طرف روس کے اسلحے کے چند بڑے خریداروں میں بھارت شامل ہے اور دونوں ملکوں کی تجارت کا حجم خاصا بڑا ہے تو دوسری طرف امریکہ کا لاڈلہ بھی بھارت ہے ۔لاڈلہ بھی ایسا کہ جس کی خاطر امریکہ نے جنوبی ایشیا میں اپنے ایک دیرینہ اور زیر اثر اتحادی پاکستان کو گنوادیا ہے ۔سردجنگ کے خاتمے کے بعد نوے کی دہائی کے آغاز میں امریکہ نے کشمیر کی
مزاحمت اور سکھوں کی تحریک سمیت کئی داخلی گروپوں کو بھارت پر دبائو کے لئے استعمال کیا ۔بھارت کے لئے روس کو چھوڑ کر امریکہ کے ساتھ کھڑا ہونا اور اپنی منڈیوں کو اچانک کھول دینا آسان نہیں تھا ۔امریکی اس عرصے میں کشمیر پر بڑھ چڑھ کر بیان دیتے رہے ۔سکھوں کے ساتھ اچھے مراسم کا تاثر دیتے رہے جونہی بھارت نے مزاحمت چھوڑ کر امریکہ کے ساتھ مکمل دوستی کرنے کا آغاز کیا تو ان مسائل پر امریکہ کا رویہ تبدیل ہو کر بھارت سے قریب تر ہوتا چلا گیا۔یہ گرم جوشی اور دوستی کا سفر آگے بڑھتا چلا گیا اور نائن الیون کے بعد تو دونوں یک جان ودوقالب ہو کر رہ گئے۔نوے کی دہائی میں بھارت میں مس ورلڈ کے تاج سجنے لگے ۔بھارت میں آزادیوں اور کھلے ماحول کی تعریفیں ہونے لگیں اور سار ا منظر اور ماحول ہی بدلتا چلا گیا۔ امریکہ نے بھارت کو غیر جانبدار بننے کے لئے سارے پاپڑ نہیں بیلے بلکہ اسے چین کے مقابلے میں ایک اہم داروغے کی ضرورت تھی۔اب چین اور روس یکجا ہو چکے ہیں اور اب بھارت غیر جانبدار ہوکر بیٹھ جائے مغرب یہ کب تک گوارا کر سکتا ہے۔امریکہ نے ایک عادی جواری کی طرح جنوبی ایشا میں اپنی ساری جمع پونجی بھارت کے لئے دائو پر لگا رکھی ہے اور یہ سب اس لئے نہیں کہ بھارت نئی سردجنگ میں غیر جانبدار تحریک کا سرپرست بن بیٹھے بلکہ یہ سارا گورکھ دھندہ اس لئے تھا کہ اسے ایشیا میں ایک” اسرائیل ”ضرورت تھا ۔بھارت اگر تادیر غیر جانبدار رہتا ہے تو اس کا مغرب کے لئے پیغام یہ ہے کہ پاکستان تو پہلے ہی ان کے ہاتھ سے گیا تھا اب بھارت بھی نکل گیا۔یوں خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔ مغرب جنوبی ایشیا میں اس صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔یوکرین کے حالات نے جہاں بھارت کو یہ پیغام دیا کہ چین کے ساتھ کسی ممکنہ تصادم میں کواڈ سمیت کوئی طاقت عملی طور پر یہاں لڑنے نہیں آئے گی ۔وہیں مغرب کے لئے بھی بھارت کی غیر جانبداری بھی ایک لمحہ ٔ فکریہ ہے ۔جس بھارت کے لئے امریکہ نے پاکستان کو تیس سال تک مارمار کر مضمحل کیا وقت پڑنے پر وہی چین اور روس کے آگے دُبک کر بیٹھ گیا۔یوں بھارت ایک عجیب مشکل اور دوراہے پر کھڑا ہو گیا ہے ۔بھارت کو اس مخمصے کی قیمت کسی نہ کسی انداز سے چکانا پڑے گی ۔

مزید پڑھیں:  جعلی لائسنس تحقیقات میں پیشرفت