زندگی میں ہر شخص مصروف ہے

اپنے تین دوستوں سے ٹیلی فون پہ باتیں کرتے ہوئے شکوہ کیا کہ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے گزشتہ دو ماہ میں ملاقات نہیں ہوئی توسب نے یہی جواب دیا کہ وہ بہت زیادہ مصروف ہیں ۔ اپنے پڑوسی سے کبھی کبھار آمنا سامنا ہوتا ہے مگر اُسے نہ جانے کیا مصروفیت رہتی ہے کہ ہر وقت عجلت میں دکھائی دیتے ہیں۔ ایک عزیز کو ہمیشہ چھٹی کے روز چائے پہ بلاتا ہوں لیکن وہ اتنے مصروف رہتے ہیں کہ اُنہیں کسی سے ملنے یا گھر پہ آرام کرنے کے لیے وقت نہیں ملتا۔ ہمارے ایک دوست دفتر میں غیر ضروری طور پر تاخیرسے بیٹھے رہتے اورپھر دفتری فائلیں اُٹھا کر گھر لے جاتے ۔ یوں گھر کا ماحول بھی خراب کرتے اور گھر والوں کی حق تلفی کے سزاوار بھی ٹھہرتے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگ ضروری اور مقصدی امور سے عموماً فرار اختیار کرتے ہوئے وقت ضائع کرنے والے عام نوعیت کے کاموں میں اُلجھے رہتے ہیں۔ جس سے یہی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ بہت ہی مصروف ہیں۔ اس کے برعکس ایسے شریف و سادہ لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ہر کام کے لیے پیش پیش ہوتے ہیں۔کوئی اپنا اضافی کام بھی اُن کے حوالے کر دے تو بخوشی قبول کر لیتے ہیںکیونکہ اُنہیں نہ کہنے یا معذرت کرنے کا فن نہیں آتا اور یوں مصروف ہونے کے ساتھ ساتھ ذہنی دباؤ کا شکار بھی ہو جاتے ہیں۔ انہی مصروفیات کے سبب اپنی ذاتی زندگی کا مقصد، منزل کا تعین اور گھر والوں کی اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ اپنی مصروفیات کا جائزہ نہیں لیتے کہ ان میں بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں کہ جن کا ترک کرنا ہی بہتر ہے اور انسان ذہنی تناؤ سے نکل آتا ہے۔ سب سے اہم بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ سب کی اپنی مصروفیات ضرور ہوتی ہیں لیکن اس سے بڑھ کر ان کی ترجیحات ہوتی ہیں ۔کچھ لوگ واقعی مصروف ہوتے ہیں اور ان کا کام نظر بھی آ رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ صحیح سمت میں اپنا مقصدی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ہاں غمِ روزگار میں بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں لیکن ارادی یا غیر ارادی طور پہ لوگ ایسے کام بھی خود پر مسلط کر لیتے ہیں کہ جن کی ضرورت نہیںہوتی۔ بس اپنے ماتھے پہ مصروفیت کا لیبل چسپاں کر دیتے ہیں۔ یوں آہستہ آہستہ کام کادباؤ بڑھتا چلا جاتا ہے جو نہ صرف ذہنی ارتعاش کا باعث ہوتا ہے بلکہ اکثر”دیر کر دیتا ہوں” کی وجہ سے بڑے قریبی رشتے ملنے کی آس میں رہ کر آخر منہ موڑ لیتے ہیں۔ ہمارے ایک بزرگ اپنے بیٹے کو فون پہ کہا کرتے کہ پردیس میں بھلا ایسی کیا مصروفیت کہ تیرے بغیر وہاں زندگی ٹھپ ہو جائے گی لیکن دیر کر دی تو گھر میں باپ کو نہ پا سکو گے ۔ وقت ایک بے مثال ذریعہ اور وسیلہ ہے ۔یہ فوری ضائع ہونے والی ایسی چیز ہے جسے نہ چھوا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے کسی طریقہ سے ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔ اہل دانش کا کہنا ہے کہ جس نے وقت کا حق پہچان لیا ،اس نے زندگی کی حقیقت معلوم کر لی کیونکہ وقت ہی زندگی کا دوسرا نام ہے۔ سینٹ آگسٹین نے لکھا ہے کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ وقت کیا ہے تو مَیں اس کا جواب نہیں دے سکوں گا لیکن کوئی نہ پوچھے تو مجھے معلوم ہے کہ وقت کسے کہتے ہیں اوراس کی تعریف کیا ہونی چاہیے۔اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے اور خاص صلاحیتوں سے بھی نوازا ہے، ہم بہت سارے کام ایک ساتھ سرانجام دے سکتے ہیں لیکن ایک مخصوص سطح سے زیادہ کام کرنا ہمارے لئے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ان میں کئی مصروفیات ایسی ہیں جن کی متبادل صورت اختیار کرکے ہم نصب العین کے حصول میں فاصلوں کو کم کرسکتے ہیں۔مصروفیات کے جائزے کے لیے ضروری ہے کہ ہم باقاعدگی سے اپنے اوقات کے استعمال کو کچھ عرصے تک ریکارڈ کرتے رہیں، پھر جائزہ لیں تو اس صورت میں تجزیہ کرنے اور فیصلہ کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔اس سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے کہ پہلے کون سا کام کیا جائے اور وقت کے حوالے سے اس کی کیا اہمیت ہے۔ اگر سارے کام ایک ساتھ شروع کر لیتے ہیں تو ایک بھی اپنے وقت پر مکمل نہیں ہو پاتا اور وہ نتائج حاصل نہیں ہوتے جو آپ چاہتے ہیں یا وقت کی ضرورت ہوتے ہیں۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ زندگی کا کوئی خاص مقصد ہونا چاہیے ۔ جس کے حصول کے لیے سمت اور وقت کا تعین لازمی ہے۔ انسان کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد ہے۔ اس کی ذمہ داریاں نبھانے میں سب لوگ مصروف رہتے ہیں ۔ محض مصروفیت کا پرچار کرنا یا مصروف دکھائی دینا کوئی اچھا یا درست عمل نہیں۔ زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنے اور اسی مصروفیت میں اپنے سکون کے لیے، دوستوں اور عزیزوں سے ملنے کے لیے وقت نکالنا بھی بہت ضروری ہے کہ یہ بھی زندگی کے اہم تقاضے ہیں۔ عربی مقولہ ہے”من قرع باب الج ولج’جو شخص دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور کوشش کرتا ہے،وہ داخل ہو ہی جاتا ہے۔ ہمیں بھی وقت کے بہتر استعمال کے ذریعہ کامیاب زندگی کے دروازے کو کھٹکھٹانا چاہیے۔

مزید پڑھیں:  بنا ہوا ہے مرا شہر قتل گاہ کوئی