ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو

انگلش میڈیم سکولوں میں پڑھائی جانے والی ”نرسری رائمز” پر مبنی کتاب میں شامل ایک منظوم کہانی دی پائیڈ پائیپر (The Pide Piper) یاد آگئی ہے ‘ یہ نظم یاد آنے کی وجہ گزشتہ روز اخبار میں شائع ہونے والی وہ خبر ہے جس میں ایک بار پھر پشاور میں بڑی جسامت کے چوہوں کی گلیوں ‘ کوچوں ‘ گھروں ‘ دکانوں وغیرہ وغیرہ میں یلغار سے شہریوں کے پریشان ہونے کا تذکرہ ہے ‘ خبر کے مطابق شہر بھر میں موٹے موٹے چوہوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہونے کے باوجود حکومت اور متعلقہ اداروں نے خاموشی اختیار کرلی ہے ‘ چوہوں کی تعداد میں اضافے سے شہری گھبرا گئے ہیں ‘ یاد رہے کہ چند سال پہلے سابق ضلعی حکومت نے چوہے مارنے کی قیمت مقرر کردی تھی اور شہر کے بے روزگار افراد نے یہ شعل بطور روزگاراختیارکرلیا تھا ‘ اور ابتداء میں تیس روپے فی چوہا(زندہ یامردہ) متعلقہ ادارے کو”سپلائی” کرکے ” جیب خرچ” وصول کرنا شروع کردیا تھا ‘ بعد میں زیادہ تعداد دیکھ کر قیمت کم کر دی تھی اور بیس روپے فی چوہا خریداری کی جاتی رہی ‘ مگر جب اس پر اچھا خاصا بجٹ خرچ ہونے لگا تو خاموشی اختیار کرلی تھی ‘ یوں ”بے روزگاروں” نے بھی مفت میں چوہے مارنے اور پکڑنے سے ہاتھ اٹھا لیا تھا ‘ تاہم اتنا ضرور ہوا تھا کہ اس چوہے مار مہم سے ان کی تعداد میں نمایاں کمی ہو گئی تھی۔ مگر اب اچانک ایک بار پھران چوہوں نے یلغار کرلی ہے ‘ اور نہ صرف گلی کوچوں میں دندناتے پھر رہے ہیں ‘ گھروں کے اندر بلا روک ٹوک آجا کر مکینوں کوپریشان کر رہے ہیں بلکہ دکانوں میں گھس کر بربادی پھیلا رہے ہیں ‘ ہمارے علاقے رشید ٹائون میں ایک جگہ جہاں گھروں کا کوڑا کرکٹ ڈالا جاتا ہے حالانکہ اس سے ملحقہ گھر کے مالکان نے اس جگہ ایک بورڈ بھی نصب کیا کہ یہاں گند ڈالنے والے۔۔۔ فلاں فلاں ہوںگے ‘ مگر اس بورڈ پر کسی نے توجہ نہیں دی اور اپنی”سرگرمیاں” جاری رکھتے ہوئے کسی من چلے نے وہ بورڈ بھی غائب کر دیا ‘ تو اس گندگی کے ڈھیر پر رات گیارہ بارہ بجے کے بعد محلے کے سارے(سارے؟) چوہے اکٹھے ہو جاتے ہیں ‘ ہمارے بچوں نے اس مقام کوچوہوں کے اقوام متحدہ کا نام دے رکھا ہے ‘ اور وہاں ہونے والی”کانفرنس” کو ہمارے ایک مختصر افسانے”مائس کانفرنس” سے تشبیہ دے رکھی ہے بہرحال ہمارے گل بہار کے لوگ بھی شہر کے دیگر علاقوں کے لوگوں کی طرح ان چوہوں کی زد میں ہیں ‘ اس دوران ہمارے گھر والوں نے کہیں دوائیاں رکھ کر اورکہیں لٹھ سے کام لیکر بہت سے چوہے شکار کئے مگر کچھ دنوں بعد چوہوں کے نئے خاندان حملہ آور ہو جاتے ہیں ‘ اور نہ صرف باورچی خانہ ان کی دسترس میں رہتا ہے بلکہ گھر میں واشنگ مشینوں میں گھس کر ان کے تار کاٹنے کو وتیرہ بنا رکھا ہے جس کی وجہ سے ہم ہر ہفتے مکینک کو بلوا کر ان مشینوں کی مرمت پر مستقل خرچہ کرنے پر بھی مجبور ہیں ‘ اب ا لیکٹرانک اشیاء فروخت کرنے والی دکانوں سے بھی ایسی ہی اطلاعات آرہی ہیں ‘ کہ یہ چوہے وہاں بھی تباہی پھیلا کر مختلف الیکٹرانک اشیاء کی تاریں کاٹ کر انہیں ناکارہ بنا رہے ہیں ‘ یوں انہیں بے پناہ نقصان سے دو چار کر رہے ہیں۔
بندہ پر ور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو
”دی پائیڈ پائیپر”کا یاد آنا اس لئے بنا کہ اس نظم میں بھی ایک قصبے میں اسی طرح چوہوں کی یلغار سے اس قصبے کے باشندے تنگ آجاتے ہیں ‘ قصبے کے میونسپل کمیٹی میں اس مسئلے پر بحث چھڑ جاتی ہے اور میونسپل کمیٹی کے سربراہ ممبران کی مشاورت سے ایک اخباری اشتہار جاری کردیتے ہیں کہ جو کوئی اس مصیبت سے لوگوں کو نجات دلائے گا اسے معقول انعام دیا جائے گا ‘ دو چار روز بعد جب ایک بار پھر میونسپلٹی کا اجلاس جاری ہوتا ہے ‘ دور سے نزدیک آتی ہوئی بانسری کی آواز سنائی دیتی ہے اس آواز میں ایک خاص قسم کی کشش ہوتی ہے جسے سن کر سارے ممبران باہر نکل کر بانسری کی دھن کے خالق کو دیکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ‘ دور سے ایک نوجوان با نسری نواز دھن بجاتے قریب آتا ہے اور میونسپلٹی کی عمارت کی گیلری میں کھڑے ممبران کو مخاطب کرتا ہے کہ اگر ہ اسے سونے کے مقررہ سکے ادا کرنے کا وعدہ کر لیں تو وہ ان چوہوں سے قصبے کو نجات دلا سکتا ہے ‘ چہ میگوئیاں شروع ہوجاتی ہیں ‘ کوئی اسے بڑبولا قرار دیتے ہوئے اس کی پیشکش کو مذاق قرار دیتا ہے ‘ کوئی اس کی دھن کے سحر میں مبتلا ہو کر اس کے دعوے کو سچ قرار دیتے ہوئے اس کی پیشکش کو قبول کرنے کا مشورہ دیتا ہے’ غرض چوہوں کی یلغار سے تنگ آئے ہوئے لوگ میونسپل کمیٹی کے سربراہ کو نوجوان بانسری نواز کے ساتھ معاہدہ کرنے پر آمادہ کر لیتے ہیں۔ نوجوان اگلی صبح میونسپل کمیٹی کی عمارت پر پہنچ کر اپنی بانسری پر ایک عجیب و غریب دھن چھیڑتا ہے اور قصبے کے ساحلی علاقے کی طرف قدم بڑھانا شروع کر دیتا ہے ‘ میونسپل کمیٹی کے ممبران اور دیگر باشندے یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں کہ جوں جوں وہ آگے بڑھتا ہے اس کے راہگزر میں گھروں او دیگر عمارتوں سے چوہے تیزی سے نکل نکل کر اس کے پیچھے دوڑتے دکھائی دیتے ہیں ‘ وہ ساحلی علاقے میں پہنچ کر اوپر ایک چٹان پرکھڑا ہوجاتا ہے اور چوہے بہت نیچے پر شور دریا میں تیزی سے گزرنے والے دریا میں چھلانگیں لگا لگا کر غرق ہوتے جاتے ہیں ‘ سب لوگ حیرت سے یہ سارا تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں یہاں تک کہ ایک ایک چوہا دریا برد ہو جاتا ہے اور مزید کوئی چوہا دکھائی نہیں دیتا ‘ سب لوگ تحسین آمیز انداز میں بانسری نواز کو دھن بجاتے دیکھتے ہیں ‘ اور اطمینان کا سانس لیتے ہوئے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ اگلے روز بانسری نوازمیونسپل کمیٹی میں جا کر معاہدے کے تحت ایک تھیلہ سونے کے سکے طلب کرتا ہے تو ممبران مکر جاتے ہیں اور ٹال مٹول سے کام لیتے ہوئے اتنی بڑی رقم ادا کرنے سے انکار کر دیتے ہیں بلکہ مقررہ رقم کی بجائے کم رقم ادا کرنے پر اصرار کرتے ہیں ‘ بانسری نواز انہیں خبردار کرتا ہے کہ اگر وہ معاہدے کے مطابق پوری رقم ادا نہیں کریں گے تو انہیں کف افسوس ملنا پڑے گا ۔ میونسپل نمائندے اس کی چتائونی کو اہمیت نہیں دیتے او معاہدے کے تحت پوری رقم دینے سے انکار کر دیتے ہیں ‘ دوسری صبح قصبے میں ایک بار پھر بانسری کی ایک اور دھن سنائی دیتی ہے اور گھروں میں سکول جانے کے لئے تیار ہونے والے بچے اور بچیاں یہ دھن سن کر گھروں سے نکل کر بانسری نواز کے پیچھے پیچھے چل پڑتے ہیں۔

مزید پڑھیں:  مفاہمت کا سنہرا موقع