پاک بھارت تجارت وقت کا تقاضا

حال ہی میں وزیر اعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق داؤد نے دوٹوک الفاظ میں بھارت کے ساتھ دو طرفہ تجارت کی مکمل بحالی پر زور دیا،ان کا یہ بیان اس لئے اہم ہے کیوں کہ عموماً پاکستان میں برسر اقتدار لوگ مشرقی ہمسائے کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتے جس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں یہ خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ اس طرح کے تاثر سے عوام میں ان کی ساکھ متاثر ہوگی ۔ اس سے پہلے ایک ممتاز کاروباری شخصیت میاں محمد منشا نے بھی ایٹمی صلاحیت کے حامل دونوںپڑوسی ممالک کے درمیان ایک ایسی مفاہمت کی ضرورت پر زور دیا تھا جو ہر سطح پر باہمی طور پر فائدہ مند سرگرمیوں کی راہ ہموار کرے۔اگر دیکھا جائے تو دونوں ممالک کے درمیان مخاصمت کی تاریک تصویر کے پس منظر میں یہ دانشمندانہ آوازیں ہیں،اگرچہ اس طرح کے بیانات یا آرا ء کسی بھی طرح سے نفرت اورمخاصمت کی گہری جڑیں رکھنے والے کلچر کی جہتوں کو تبدیل نہیں کرسکتے ،تاہم یہ اس لیے اہمیت کے حامل ہیں کہ ان سے اُن لوگوں میں کچھ امید پیدا ہوتی ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان طویل جمود کے خاتمے کے خواہاں ہیں۔ پاکستان اور بھارت کشمیر کے تنازع پر گزشتہ 75 سالوں سے ایک دوسرے کے دشمن پڑوسی کے طور پر رہے ہیں، کشمیر کے 60لاکھ عوام کی خودمختاری کے حل نہ ہونے والے مسئلے کی وجہ سے دونوں ممالک کے تقریبا ًایک ارب ساٹھ کروڑ لوگ مشکلات کا شکار ہیں، پاکستان ثابت قدمی سے مقبو ضہ کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کے حمایت کرتا رہا ہے جبکہ بھارت نے پاکستان پر ان لوگوں کو سیاسی اور مادی مدد فراہم کرنے کا الزام لگایا ہے جو وادی پر اس کے کنٹرول کے مخالف ہیں لیکن طویل عرصے تک مزاحمتی گروپوں کی مسلسل حمایت کے بعد نتیجہ مایوس کن رہا ہے۔ خود مختاری کے معاملے پر کوئی ٹھوس پیش رفت حاصل ہونے کے بجائے بھارت کے زیر تسلط کشمیر اپنی شناخت کھو چکا ہے۔ نئی دہلی نے ریاست پر گورنر راج نافذ کر دیا ہے جو اب مرکز کے تحت علاقہ ہے اور ریاست نہیں رہی اور بھارت کے اس اقدام سے تقسیم، اختلاف اور دشمنی مزید گہرا ہو گئی ہے۔ پاک بھارت دائمی دشمنی کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ عوامی سطح پر رابطے نہیں ہیں، نسلی، زبان، ثقافت اور مشترکہ تاریخ کے مضبوط رشتوں کے ساتھ دونوں قوموں کے درمیان ثقافتی تبادلے نہیں ہیں،کوئی تجارت نہیں ،اگرچہ مخاصمت کچھ لوگوں کے لئے اہم ہے اور اسے جاری رکھنا ہے چاہے کوئی بھی قیمت کیوں نہ ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کو اس کی بھاری قیمت چکانی پڑی ہے۔ دونوں ممالک میں وسائل کی ایک بڑی تعداد کو دفاعی تیاریوں کی طرف موڑ دیا گیا ہے جب کہ لاکھوں لوگ غربت کی زندگی گزار رہے ہیں، لاکھوں لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں، لاکھوں لوگ تپ دق، ملیریا، پیٹ کے امراض وغیرہ میں مبتلا ہیں، اکیسویں صدی میں لاکھوں بچے سکول نہیں جا رہے، عالمی بینک کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کے بے پناہ امکانات ہیں جس کی مالیت 45 بلین ڈالر سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ لیکن بھارت کے ساتھ تجارت ممنوع ہے کیونکہ یہ مسئلہ سکیورٹی کے تصور سے جڑا ہوا ہے۔چنانچہ تجارت کے حوالے سے ہر اقدام کواس لئے نظر انداز کیا جا رہا ہے کیونکہ سلامتی ایک اہم مقصد ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان بہت سے تنازعات ہیں جیسے کہ جنوبی بحیرہ چین، اروناچل پردیش کی سرحد، دلائی لامہ کو پناہ دینے کا مسئلہ وغیرہ ، لیکن پھر بھی، ان کی باہمی تجارت 100 بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے،ایسے ممالک کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں جن میں مختلف مفادات اور علاقائی تنازعات ہیں لیکن ایسے تنازعات تجارت کے راستے میں نہیں آئے جس سے تقسیم کے دونوں طرف کے لوگ فائدہ اٹھاتے ہوں۔ پاکستان اور بھارت میں مفاہمت اور امن کی گہری خواہش موجود ہے، لوگ سیاحوں کو راغب کرنے کے لیے رشتہ داروں اور تاریخی مقامات کا دورہ کر سکتے ہیں، زراعت، تعلیم، تحقیق، جنگلات کے تحفظ اور ماحولیات وغیرہ کے شعبوں میں تبادلے ہو سکتے ہیں۔لیکن یہ سب تب ہی ہو سکتا ہے جب جمودکا خاتمہ ہو اور جنوبی ایشیا خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو اور غربت میں مبتلا لاکھوں لوگوں کو راحت ملے۔ یقینا کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو جمود کو جاری رکھنے کے حق دلیل دیتے ہوںجس سے کچھ فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں لیکن اب وقت آگیا ہے کہ ایسے اختلاف کرنے والوں کا مقابلہ کیا جائے،کیونکہ انسانیت کے تقریباً پانچویں حصے کا مستقبل دا ؤپر لگا ہوا ہے، لاکھوں اور کروڑوں غریب لوگوں کی سماجی و اقتصادی نجات کا ہدف دا ؤپر لگا ہوا ہے۔ یہ وقت ہے کہ دانشمندانہ کی آوازوں کو سنا جائے اور انسانی زندگیاں بچانے، غربت کے خاتمے اور تعلیم کی فراہمی اور غریبوں کی اتنی بڑی تعداد کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچا جائے،یہ چیلنج بہت بڑا ہے جو زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ایک نئی سوچ اپناکا تقاضاکرتا ہے۔
(بشکریہ ، عرب نیوز، ترجمہ: راشد عباسی)

مزید پڑھیں:  افغانستان سے ایک بار پھر مطالبہ