صحت کارڈ کتنا مفید اور کتنی گنجائش؟

نیشنل ہیلتھ اکاونٹ رپورٹ برائے سال 2017-18کے مطابق پاکستان کی83فیصد آبادی پرائیویٹ ہسپتالوں سے علاج کروانے پر مجبور ہے جس کی وجوہات سرکاری سہولیات کی عدم دستیابی یا ان کا غیر معیاری ہونا ہے۔ پاکستان کا ہر شہری اوسطاً تقریباً تین ہزار روپے سالانہ صحت کے لیے خود پر خرچ کرتا ہے اور اس طرح شہری اپنی صحت پر کل650ارب روپے خرچ کرتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ان 650ارب روپے میں سے تقریباً 73فیصد اخراجات شعبہ بیرونی مریضاں پر خرچ ہوتے ہیں صرف20فیصد اندرونی مریضاں یعنی سرجری وغیرہ پر جبکہ باقی اخراجات خود سے ادویات خریدنے یا دیگر پر خرچ ہوتے ہیں۔پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس(پائیڈ)کی نئی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق صحت سہولت پروگرام کے تحت جاری کیا گیا صحت کارڈ لوگوں کو غربت سے نکالنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے تاہم اس کارڈ سے بھرپور فائدہ صرف تب ہی اٹھایا جا سکتا ہے جب او پی ڈی یعنی شعبہ بیرونی مریضاں پر بھی اسے استعمال کیا جا سکے۔اس وقت صحت سہولت پروگرام کے تحت صحت کارڈ صرف ان ڈور ٹریٹمنٹ کے اخراجات ادا کرتا ہے یعنی اس سہولت سے فائدہ صرف تب اٹھایا جا سکتا ہے جب مریض کو ہسپتال میں داخل کروا دیا جائے۔جس کے باعث آبادی کی سب سے بڑی تعداد کو اس سہولت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ عوام کی ایک بڑی تعداد اس سہولت سے مطمئن نظر نہیں آتی۔ جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے موجودہ پروگرام کو آدھا تیتر اور آدھا بٹیر بنا رکھا ہے جس کے تحت نا صرف شہریوں کی انشورنس کے پیسے حکومت دیتی ہے بلکہ سرکاری ہسپتالوں کا بجٹ بھی اسے دینا ہوتا ہے جو سرکاری خزانے پر دوہرے بوجھ کا باعث ہے ریسرچ سکالر کے مطابق کئی سکینڈے نیوین ممالک جیسے ناروے، سویڈن، ڈنمارک وغیرہ میں صحت کی تمام سہولیات حکومت کی جانب سے مفت دی جاتی ہے جبکہ امریکہ جیسے ممالک میں شہری تمام صحت کے اخراجات انشورنس کے ذریعے پورے کرتے ہیں، مگر پاکستان کا صحت سہولت پروگرام ان میں سے ایک کے ساتھ بھی مکمل مطابقت نہیں رکھتا۔اس کے باوجود صحت سہولت پروگرام میں اخراجات کا دوہرا ضیاع بھی ہو رہا ہے کیونکہ فوج اور دیگر اداروں کے سرکاری ملازمین نا صرف اپنے اداروں کی مفت صحت سہولیات بھی حکومت سے لیتے ہیں بلکہ انشورنس کی مد میں ان کے کارڈ کے اخراجات ایک بار پھر حکومت کو دینے پڑتے ہیں۔ان تمام عوامل کا حکومت کو ازسر نو جائزہ لینا چاہئے اور ایسی سہولت متعارف کرانی چاہئے جس سے پوری آبادی کو یقینی فائدہ ملے۔
گردے فروخت کرنے کا عمل
افغانستان کے شہر ہرات میں بے روزگار اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے مجبور افراد کی جانب سے گردہ فروخت کرنے کا عمل یقینا تکلیف دہ امر ہے یہ عمل موجودہ طالبان حکومت کے دوران شروع نہیں ہوا بلکہ ایک سرجن کے مطابق پانچ سال کے دوران گردے نکالنے کے ہزاروں آپریشنز ہو چکے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ افغانستان میں کافی عرصے سے یہ عمل جاری ہے افغانستان میں اس طرح کی صورتحال پر تشویش ہونا فطری امر ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا صرف افغانستان ہی میں نہیں ہورہا ہے بلکہ دنیا کے دیگر غریب ممالک میں بھی ایسا ہونے کا شبہ ہے ۔ پاکستان کے حوالے سے اگرجائزہ لیا جائے تو یہاں پر چوری چھپے گردے فروخت کرنے کا عمل کافی عرصے سے جاری ہے ۔خیبر پختونخوا کے دارالخلافہ سے متصل علاقے میں فروخت شدہ غیر قانونی گردے لگانے کا ایک پورا نیٹ ورک پکڑا گیا تھاعلاوہ ازیں بھی یہ بات عام ہے کہ ضرورت مند افراد80سے 90 لاکھ روپے خرچ کرکے گردہ حاصل کرتے آئے ہیںجوضرورت مند اندھا ہوتا ہے کے محاورے کی عملی مثال ہے جس میںفروخت کنندہ اور خریدار دونوں ہی آتے ہیں۔یہ نہایت تکلیف دہ صورتحال ہے جس میںکسی فریق کو الزام نہیں دیا جا سکتا سوائے اس کے کہ وہ ایسا کرنے پر حالات کے ستم کے باعث مجبور ہیں۔اس کی روک تھام کے لئے جہاں قانون کو حرکت میں لانے کی ضرورت ہے وہاں پر عوام کو شدید غربت اور بھوک سے نکالنے کے لئے بھی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ پیٹ پوجا کے لئے گردے فروخت کرنے کی نوبت نہ آئے ۔
نہری آلودگی ‘لاینحل مسئلہ
صوبائی دارالحکومت پشاورسے گزرنے والی نہروں میںگندگی پھینکنے اور گٹرکا پانی نہروں میں ڈالنے کے حوالے سے محکمہ آبپاشی اور ماحولیات کے ساتھ ساتھ آبی وسائل کی تحفظ کی مرکزی وزارت کی جانب سے بدستورارتکاب غفلت واضح ہے اس ضمن میں عدالت عالیہ پشاور کی جانب سے بھی احکامات دیئے گئے تھے جس پر عملد رآمد ہنوز نہیں کیا جا سکا ہے دیدہ دلیری کا عالم یہ ہے کہ حسن گڑھی نہر میں صنعتی فضلہ پھینکنے سے آبی نہرصنعتی فضلہ کے جھاگ سے بھر گئی ہے جس سے م تعلقہ محکموں نے آنکھیں بند کر رکھا ہے کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اس ڈھٹائی سے آلودگی پھیلائی جارہی ہے اور کوئی نوٹس لینے والا نہیں۔یہ نہایت تشویشناک صورتحال ہے جس سے آبادی کے متاثر ہونے کا ہی امکان نہیں بلکہ اس زہریلے پانی کے زراعت میں استعمال کے باعث زہریلی فصلوں کی تیاری کا بھی امکان ہے جو عوام کی صحت سے کھیلنے کے مترادف اور سنگین عمل ہو گا۔ یہ امر سمجھ سے بالاتر ہے کہ ماحولیاتی قوانین اور عدالتی احکامات کا کھلم کھلا مظاہرہ جاری ہے جس کا نہ تو سرکاری محکمے اس کا نوٹس لیتے ہیں اور نہ ہی عدالتی احکامات کی پابندی ہو رہی ہے جتنا جلد ممکن ہو سکے اس کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات کئے جائیںاور ذمہ دار عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے نیز غفلت برتنے والے حکام کی بھی سرزنش ہونی چاہئے۔

مزید پڑھیں:  آٹھ شعروں کی غزل پر ٹیکس کاٹا جائے گا