غیر جانبدار پالیسی اختیار کرنے پر عالمی دبائو

پاکستان کی جانب سے افغانستان کے حوالے سے غیرجانبدارانہ پالیسی اپنانے کے بعد اب روس یوکرائن تنازع میں بھی اسی طرح کی پالیسی اختیار کر لی ہے البتہ وزیر اعظم عمران خان نے جس نازک موقع پر روس کا دورہ کیا اسے اہم ممالک کی جانب سے روس کی جانب جھکائوسے تعبیر کیاگیا ہے اسلام آباد میں امریکا اور اس کی حامی ریاستوں کی سفیروں کی جانب سے روس کی مذمت کے لئے پاکستان پر دبائوڈالنا شروع کر دیاگیا ہے اس طرح کا دبائو قبل ازیں نائن الیون کے بعد بھی ڈالاگیا تھا جو کامیاب ثابت ہوا لیکن اس مرتبہ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اس قضیے میںغیر جانبدار پالیسی اختیار کر چکا ہے جس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں یہ ماضی کی غلطیاں نا دہرانے کا موقع بھی ہے دیکھا جائے تو یوکرائن اور روس کے درمیان تنازعہ یورپ کی سرد جنگ کا حصہ ہے جو یوکرائن میں جاری ہے۔اس جنگ میں پاکستان کے براہ راست مفادات نہیں ہیں۔اس لئے پاکستان بھی بلاوجہ میں ٹانگ اڑانے کی بجائے غیر جانبدار رہنے کی پالیسی اختیار کرنے جارہا ہے علاوہ ازیں پاکستان کے تعلقات روس’ چین اور وسطی ایشیا سے بھی ہیں ایسے میں کسی جانب جھکائو پاکستان کے مفاد میں نہیں خواہ اس میں بعض ممالک کی ناراضگی ہی کیوں نہ مول لینی پڑے سب سے اہم بات یہ کہ پاکستان اب کسی قسم کی کشیدگی کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔ نہ کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے اور نہ کسی کی مخالفت کرنا چاہتا ہے۔پاکستان اس تنازع میں الجھنے سے گریز کرنا چاہتا ہے جو اسے ایک غیر آرام دہ پوزیشن میں ڈال سکتا ہے۔پاکستان امریکا کا روایتی اتحادی ہے جس نے ماضی میں واشنگٹن کو چین تک رسائی کے لئے راہداری فراہم کی تھی۔تاہم دونوں ممالک کے درمیان تعلقات حال ہی میں کشیدہ ہوئے ہیں کیونکہ امریکا بھارت کے زیادہ قریب ہوگیا ہے’ جس کا چین پر قابو پانے کے لئے امریکی کوششوں میں اب کلیدی کردار ہے۔چین’ پاکستان کا سب سے قریبی اتحادی ہے جو اقوام متحدہ اور ایف اے ٹی ایف جیسے مختلف بین الاقوامی فورمز پر اہم معاملات میں اسلام آباد کی حمایت کرتا ہے۔ایسے میں اب پاکستان کے لئے غیر جانبدارانہ کردار کا انتخاب ہی مصلحت ہے ۔مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان بتدریج امریکی اثر و رسوخ سے باہر نکل رہا ہے اور چین اور روس دونوں کے قریب ہو رہا ہے تاہم اسلام آباد اس دعوے کی تردید کرتا ہے۔پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ چین اور امریکا دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھنا چاہتا ہے اور بظاہر اسی لئے وہ یوکرائن کے تنازع میں نہیں پڑنا چاہتا۔لیکن پاکستان پر اپنی پوزیشن میں تبدیلی لانے کے لئے دبائو بڑھ رہا ہے ۔فرانس اور جرمنی سمیت پاکستان میں موجودمتعدد سفارتی مشنز کے سربراہوں نے اسلام آباد سے اصرار کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں یوکرائن کے خلاف روس کی مسلح دشمنی کی مذمت کریںاوراقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کے بین الاقوامی قانون کے بنیادی اصولوں کی حمایت اور اسے برقرار رکھنے میں ان کا ساتھ دیا جائے ۔ مراسلے پرآسٹریلیا ‘ بیلجیم ‘ بلغاریہ ‘ چیک ری پبلک ‘ ڈنمارک ‘ فرانس ‘جرمنی ‘ یونان ‘ ہنگری ‘ اٹلی ‘ پرتگال ‘ پولینڈ ‘ رومانیہ ‘سپین ‘ سویڈن ‘ نیدر لینڈ’ جاپان ‘ ناروے اور سوئٹزر لینڈ کے سفیروں کے علاوہ پاکستان میں یورپی یونین کے وفد کے سربراہ نے بھی دستخط کئے ان کے علاوہ برطانیہ او کینیڈا کے ہائی کمشنرز ‘ آسٹریلوی سفارتخانے کے ناظم الامور بھی دستخط کنند گان میں شامل تھے ۔ اجلاس کے منتظمین کو امید ہے کہ قرارداد کے حق میں تقریباً 100 سے زائد ووٹ دیں گے یا غیر جانبدار رہیں گے ۔ اگرچہ پاکستان کی جانب سے روس یوکرائن تنازع میں واضح پالیسی اختیار کی گئی ہے تاہم بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ پاکستان ابھی دوراہے پر کھڑا ہے اور پاکستان پر دبائو میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا ثبوت محولہ مراسلہ سے واضح ہے ۔بہرحال پاکستان ایک فیصلہ کن موڑ پہ کھڑا ہے اور اس تنازع کے حوالے سے جو موقف اپنا چکا ہے اس پر استقامت اگرچہ مشکل اور دبائو برداشت کرنے کا باعث ضرور ہوگا لیکن استقامت کا مظاہرہ کیاگیا تو پاکستان دنیا میں واضح غیر جانبدار خارجہ پالیسی اختیار کرنے والے ممالک میں شامل ہو گا جو یقینا خوش آئندبات ہو گی۔محولہ مراسلہ نگاروں سے معذرت کی پاکستان کو قیمت بھی ادا کرنی پڑے تو اس کے لئے تیار ہونا پڑے گا۔ویسے بھی دیکھا جائے تو پاکستان کسی بلاک کا حصہ بن کر کچھ حاصل کرنے کی بجائے بہت کچھ کھونے کا ہی تجربہ رکھتا ہے جس کا اعادہ نہیں کیا جانا چاہئے ۔پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے عوام کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ پاکستان ایک آزاد اور غیر جانبدار پالیسی اپنائے جس کی طرف پیش رفت احسن اور قومی امنگوں کے مطابق ہے ۔پاکستان کے لئے یہ سنہری موقع ہے کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی کی سمت نو کا دنیا کو واضح پیغام دے اور اس پر عمل کرکے ثابت کرے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت اب بدل چکی ہے اور پاکستان کسی بلاک کا حصہ نہیں بلکہ غیرجانبدار ملک ہے۔

مزید پڑھیں:  اچھا منصوبہ