معاشی پیکج ‘مہنگائی کارڈ اور مہنگائی

وزیر اعظم عمران خان نے دورۂ روس سے تین دن کے بعد قوم سے خطاب میں ایک معاشی پیکج کا اعلان کیا جس کے مطابق پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں دس روپے اور بجلی کی فی یونٹ قیمت میں پانچ روپے کی کمی کر دی گئی ۔وزیر اعظم نے یہ اعلان بھی کیا کہ اگلے چار ماہ یعنی وفاقی بجٹ تک پٹرولیم مصنوعات میں اضافہ نہیں ہوگا اور دو سو پچاس بلین ڈالر کا یہ ریلیف چار مہینے تک نافذ العمل ہوگا۔اس کا اثر گردشی قرضوں پر بھی نہیں پڑے گا۔اس سے پہلے دنیا بھر میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث اوگرا نے قیمتوں میں دس روپے اضافے کی سمری بھیج دی تھی اور خدشات یہی تھے کہ یوکرین جنگ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا اور اس سے مہنگائی کی ایک نئی لہر آئے گی ۔یہ خدشات اس وقت غلط ثابت ہوئے جب وزیر اعظم نے پٹرولیم مصنوعات میں کمی کا اعلان کیا ۔ اپوزیشن کا خیال ہے کہ یہ عمران خان کی حکومت کو ان کی یلغار سے بچانے کے لئے ہونے والا فیصلہ ہے جس کا تعلق آنے والے انتخابات سے ہے۔ہو نہ ہو اس فیصلے کا تعلق عمران خان کے دورۂ روس سے ہے ۔روس یوکرین پر حملے کے باعث شدیدمغرب کی طرف سے شدیدپابندیوں کی زد میں آرہا ۔جس کا فطری اثر اس کی تیل کی پیداوار اور فروخت پر بھی پڑنا ہے ۔یورپ جوروسی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے امریکہ کی ہمنوائی میں معاشی پابندیوں پر جشن تو منارہا ہے مگر دوسرے ہی لمحوں وہ اس اقدام کے مضر اثرات سے بھی خوف زدہ ہے۔ ایسے کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جو معاشی پابندیوں کو بے اثر بناتے ہوئے روس کے ساتھ معمول کی تجارت جاری رکھنے پر اصرار کریں گے ۔عمران خان نے بھی ایک مشکل لمحے میں روس پہنچ کر دنیا کو یہی پیغام دیا کہ وہ آزادروی کو ترک نہیں کریں گے۔روس پاکستان کو معمول کی قیمت پر پٹرولیم مصنوعات فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔یورپ نے اس کا معاشی مقاطع کرکے اسے مغرب کی سمت جانے سے روک دیا ہے تو وسط ایشیائی ریاستوں کے ذریعے مشرق کی وسعتیں اس کے لئے کھلی ہیں۔اسی طرح عوام کو سبسڈی دینا آئی ایم ایف کی ہدایات اور پابندی کے باعث قطعی ممکن نہیں تھا ۔آئی ایم ایف نے پاکستان کی گردن دبوچ کر اسے عوام کو نیا ریلیف تو درکنار ماضی کے ریلیف ختم کرنے کے لئے دبائو بڑھا رکھا تھا ۔اس دبائو کے باوجود اگر حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ کیا تو یہ آئی ایم ایف کے فیصلے سے انحراف اور ایک طرح کی بغاوت ہے۔یہ فیصلہ آئی ایم ایف کو خداحافظ کہنے کا نقطۂ آغاز بھی بن سکتا ہے کیونکہ عوام کو ریلیف دینے کا مطلب عملی طور پر آئی ایم ایف کو بائی پاس کرنا ہی ہے۔یہ آمادۂ فساد اپوزیشن کے ہاتھ سے مہنگائی کارڈ چھیننے کی ایک کوشش بھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن آئی ایم ایف کے خلاف مظاہرے کرتے کرتے اور آئی ایم ایف کی غلامی پر حکومت کو کوستے ہوئے اچانک آئی ایم ایف کی ہمدرد بن گئی کہ آئی ایم ایف کو کیا چکر دے دیا گیا ۔آزاد مبصرین اسے جادو کا وہی کمال قراردیتے ہیں جو گزشتہ دو حکومتوں کے وزرائے خزانہ دکھا کر چلے جاتے رہے اور انہیں ایک ماہر معیشت نے آنے والی حکومت کے لئے بارودی سرنگیں قرار دیا تھا وقت نے اس بات کو صحیح ثابت کیا تھا۔اپوزیشن نے اپنا سارا بیانیہ اسی بنیاد پر کھڑا کیا تھا کہ حکومت کی معاشی ٹیم کی نااہلی کے باعث ملک میں مہنگائی کا سیلاب آیا ہے اس لئے حکومت سے چھٹکار ہ ضرور ی ہے۔تلخ حقیقت تو یہ ہے موجودہ حکومت کو عالمی سیاست اور معیشت کے نین نقش سنوارنے والوں نے روز اول سے ہی پسند نہیں کیا تھا ۔وہ جس دن سے خائف تھے وہ پہلے ”ہرگز نہیں ” اور بعدازاں جمہوریت کانفرنس سے غیرحاضری اور بیجنگ اولمپکس میں شرکت کر کے اور اب دورہ ٔ ماسکو سے آکر رہا ۔پاکستان کو مستقبل کے انہی لمحوں میں اپنی لائن بدلنے سے روکنے کے لئے مغرب نے پاکستان کے باثر سیاست دانوں کو اپنے ہاں دولت کے انبا ر لگانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی تھی ۔مغرب کواس سے غرض نہیں تھی کہ غریب ملکوں سے یہ سرمایہ عوامی ٹیکسوں کا ہے یا کسی اور ناجائز ذریعے سے کمایا ہوا ہے ۔یہ سرمایہ کسی بینک کے ذریعے آیا ہے یا گدھے پر لاد کر لایا گیا ۔انہیں اس سے غرض تھی کہ سرمایہ کسی بہانے ان کے ملک میں آکر معیشت کی رگوں کا خون بن رہا ہے اور یہ کہ ملک کے بااثر سیاست دان ان کے مستقل اثرات کی زد میں آرہے ہیں ۔حکومت حالات کے ہاتھوں مجبو ر ہو کر عوام کو دی جانے والی سبسڈی ختم کرتی چلی جا رہی تھی اور عوام کی کمر اس مہنگائی کے باعث دہری ہوتی جا رہی تھی ۔حقیقت یہ ہے کہ ملک کے معاشی معاملات عملی طور پر آئی ایم ایف نے اپنے کنٹرول میں لے رکھے تھے اور یہ آئی ایم ایف کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش ہے۔اب حکومت کو اپنی پوری توجہ اس بات پر صرف کرنی چاہئے کہ اس پیکج کے اثرات مہنگائی کے ستائے ہوئے عام آدمی تک پہنچیں ۔

مزید پڑھیں:  اچھا منصوبہ