چپنی سرک گئی

کوئی کہہ رہاہے کہ آئندہ 48گھنٹے اہم ہیں تو کوئی کہہ رہا ہے کہ 72گھنٹوںمیں تحریک عدم اعتما د آرہی ہے گزشتہ تین ما ہ سے شنید ہی شنید ہے ہو ہو ارہا کچھ نہیں بس عوام تحریک عد م اعتما د کی آنی جا نی دیکھ رہے ہیں ۔مطلب براری کے لیے وقت کے دشمن بغل گیر ہو رہے ہیں ۔عدم اعتماد کی کھچڑی کو دم پر لگا دیا گیا ہے مگر اس میں سے کوئی مہک نہیں اٹھ رہی ہے ۔ایسے میں مسلم لیگ ن کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال نے بھی کہہ دیا کہ مسلم لیگ ق سے ہٹ کر بھی ان کے ناسفتہ موتی پورے ہیں ۔ایسے نگینو ں کی تعد اد 187بتائی جا رہی ہے ، اگر ایسا ہی ہے تو مسلم لیگ ق نہ ادھر کی رہی نہ ادھر کی ، کیو ں کہ اب دونو ں کا اعتبار جا تا رہاویسے ایسے موقعوں پر یو ں ہو ا کر تا ہے ، وزیر اعظم لاہو ر گئے کیوںگئے یہ سوال فضولیا ت کے زمر ے میں آتا ہے وزیر اعظم پاکستان ہیں وہ ملک کے کسی کو نے میں جا سکتے ہیں تاہم لاہو ر آمد کی سواگت کی گھنٹی بج رہی تھی کہ وہ اپنے شریک اقتدار جماعت مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجا عت کی عیا دت کر یں گے ، یہ عیادت بھی عجب رنگ میںہوئی وہ اس طرح جب صحافیو ں نے معلوم کیا تو کاشانہ چودھریو ں سے یہ آواز آئی کہ ان کے پاس عیا د ت کر نے کی اطلا ع نہیں ہے چنا نچہ بتایا یہ گیا کہ جب وزیر اعظم کا عزم سفر برائے عیا دت ہو ا تو اس سے تھو ڑا پہلے اطلا ع دی گئی کہ وزیر اعظم تشریف لا رہے ہیں ۔ بتایاجا تا ہے کہ اس وقت چودھری شجاعت اپنے مستقر پر راحت فرما رہے تھے اور پر ویز الہی کے بقول وہ اپنے والد محترم کے دوست کی عیا دت کے لیے ڈی ایچ ایس گئے ہو ئے تھے جہا ں سے ان کو ٹھو ر ٹھکا نے پہنچناپڑا جبکہ وزیر اعظم سے ملا قات میں مو نس الہی شامل نہ ہو پائے ان کے بارے میں بتایا گیا کہ پہلے سے وزیر اعظم کی آمد کی باضابطہ اطلا ع نہ تھی وہ گجر ات گئے ہوئے تھے ۔ ملا قات کے بعد وزیر اعظم سید ھے عازم گورنر ہا ؤس ہو گئے، موقع پر موجود صحافیو ں سے کوئی گفتگو نہ کی ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ وہ عیادت کے لیے تشریف لائے تھے کوئی سیا سی اکٹھ نہ تھا عیادت کے وقت کیا بیان بازی کرنی تھی اس لیے سیدھے پدھار گئے البتہ بعد ازاں سرکا ر کی طر ف سے پریس ریلز جا ری ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ملا قات عیا دت میں مسلم لیگ ق کی قیا دت نے یقین دلا یا ہے کہ مسلم لیگ ق اتحادی جماعت کی حثیت سے پی ٹی آئی کے ساتھ مضبوط قدمو ں کے ساتھ کھڑی ہے ۔صحافیو ں نے چودھر ی برادران سے جب رابطہ کیا تو ان کو بتایا گیا کہ ملا قات کے دروارن تحریک عدم اعتما د کے بارے میں کوئی بات ہی نہیں ہوئی ایک ملا قات اور دو متضاد خبریں جس سے ایک الجھن پیدا ہو گئی ۔ سرکا ر کی طر ف سے جو پر یس ریلز جا ری ہوئی اس پر اعتماد کیا جا سکتاہے کیو ں کہ حکام اتنا بڑا فریب نہیں کر سکتے کل کلاں وزیر اعظم کی ملا قات کی تفصیل درست نہ ہو نے پر شرمندگی کا سامنا ہو سکتا ہے البتہ چودھر ی برادران کی جا نب سے جو کہا گیا وہ ایک سیا سی چال ہے کیو ں کہ ایسے مو اقع پر دوفریق کے مابین رسہ کی کے دوران تیسری پارٹی کو بارگینگ کا ہتھاچڑھ جا یا کر تا ہے اور وہ زیا دہ سے زیا دہ منفعت بخش سودا کر نے کی پوزیشن میں ہو جاتی ہے ہو سکتا ہے کہ چودھری برادارن نے تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والو ں کو اپنے اعتما د سے محروم نہ کر نے کی چال چلی ہو ۔اس سارے کھیل کا نتیجہ یہ ہی نکلتا نظر آرہا ہے کہ مسلم لیگ ن پہلے ہی اعتبار کرنے میںنہیں تھی اب دوسری جماعتیں بھی مسلم لیگ ق کی طرف سے عدم اعتما د کا شکا ر نظر آرہی ہیں اس بناء پر مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنر ل احسن اقبال کوبے اعتنائی سے کہنا پڑا کہ یہ سفر مسلم لیگ ق کے بغیر بھی کٹ جائے گا ۔تاہم اس سے زیادہ بہتر بے اعتنا ئی کا اظہا ر مولا نا فضل الرّحما ن کیا ہے ان کا فرما ن ہے کہ خزاں کو جاناہے چاہے بہا ر آئے نہ آئے ۔بہار آئے نہ آئے بڑاذومعنی بھی اور خطرے کی نشاندہی سے پر جملہ ہے ۔ اللہ خیرکرے ۔ادھر وزیر اعظم عمر ان خان کا قوم سے کیے گئے خطاب کے ناقدین ہنوز اپنی اپنی عقل سے بخیے ادھیڑ رہے ہیں ۔ یہ اپنے اپنے ظرف کا معاملہ ہے تاہم ایک بات ضرور کہی جا سکتی ہے کہ وزیر اعظم کی جا نب سے جو مقبول فیصلے مر اعات کی صورت کیے گئے ہیں ان کو ویسی پذیرائی نہ مل سکی اب تک ماہرین اقتصادیا ت کی جا نب سے زیا دہ تر ناقص کا ہی اظہار کیا جا رہا ہے ۔عوام بھی اس کو اونٹ کے منہ میں زیر ا قرار دے رہے ہیں ، اکثر ماہرین کا نقطہ نظر یہ ہے کہ پیڑول اور بجلی کی مد میں جو مر اعات اعلان کی گئی ہیں اس سے حالا ت میں بہتری ہو نے کی بجائے مزید بگاڑ کا اند یشہ موجو د پایا جا تا ہے ۔ دو چار دن بات آئی ایم ایف کے ساتھ وزرات خزانہ کی بیٹھک ہے جس میں ایک ارب کی دی رقم کا جائزہ لیا جا ئے گا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط کو کہا ں تک تکمیل کیا ۔کہا جا رہا ہے کہ مراعات کا اعلا ن آئی ایم ایف کی شرائط سے ہٹ کرہے کیا حکومت نے آئی ایم ایف کا ہاتھ چھوڑ دیا ہے یاہاتھ چھوڑدیاہے ۔پھر مراعات میںیہ کہا گیا ہے کہ آئندہ بجٹ تک موجودہ قیمتیں برقرار رہیںگی جبکہ یو کرائن اورروس کی جنگ کی وجہ سے پٹرولیم کی مصنوعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ اس سے پیدا ہو نے والی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کیا کوئی دوسری منصوبہ بندی کر رکھی ہے ۔اس بڑھتے ہوئے اضافہ کا بھی بوجھ خزانہ پر پڑے گا ، کیو ں کہ روس یوکرائن تنا زعہ سے پہلے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قدر نو ے ڈالرفی بیرل تھی اب ایک سو تین ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے ۔ان سب سے ہٹ کر پیڑول اوربجلی کی قیمتو ںمیںجو کمی کی گئی ہے اس سے عوام کو کس حد تک فائدہ پہنچے گا ، ممکن ہے کہ بجلی کے بلو ں میںکسی حد تک کمی عوام محسوس کر پائیں تاہم پیٹرول کی قیمتوں میںجوکمی گئی ہے اس کا صر ف ٹرانسپو رٹرز کو فائدہ ہو گا کیو ں کہ اشیا ء ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ جو ہے وہ برقرار ہے اوررہے گا ۔ پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں بھی کمی نہیں ہوئی جبکہ پیڑول کی قیمت بڑھنے کے ساتھ ہی پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں من مانی بڑھوتی کر دی جاتی ہے ۔چنانچہ جس مہنگائی کا دباؤ غریب پر پڑ ا ہو ا ہے اس میں ہلکا پن پید ا ہو نے کی امید ساقط نظرآرہی ہے ۔حکومت کوچاہیے کہ وہ بازار کا جائزہ لے اور قیمتوں کو کنٹرول کرنے کا بندوبست کرئے تاکہ حکومت نے جو اعلا نا ت کیے ہیں اس کے ثمر سے عوام براہ راست مستفید ہو سکیں ۔

مزید پڑھیں:  بجلی گرانے کا تسلسل