اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ متنازعہ پیکا ترمیمی آرڈی ننس واپس لینے کے لئے تیار ہیں نجی چینل پر گفتگو کے دوران انہوں نے کہا کہ ہم نے سپیکر پنجاب اسمبلی پرویز الٰہی کو مکمل اختیار دیا ہے جس طرح وہ کہیں گے اس طرح کر لیں گے جس پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔پیکا ایکٹ ترمیم کے حوالے سے جس طرح کے تحفظات کا اظہارکیاجاتا رہا ہے ان تحفظات کے پیش نظر مناسب تو یہ تھا کہ اس حوالے سے سارے طبقات میںاتفاق رائے پیدا کئے بغیرایکٹ میں ترمیم نہیں ہونا چاہئے تھا وزیر اعظم نے اپنے تازہ خطاب میں اس ایکٹ میں ترمیم کا بھر پور دفاع کیا جبکہ وزیر اطلاعات اس ایکٹ میں ترمیم کی ہرفورم پر وکالت کر چکے ہیں اب اچانک پیکا آرڈیننس کے معاملے پر وفاقی حکومت کے اختیار کو ایک جانب رکھ کر معاملے پر سپیکر پنجاب اسمبلی کو فیصلے کا اختیار دینا اور حکومت کی پیکا آرڈیننس کی واپسی پر آمادگی کا اعلان تو خوش آئند ہے لیکن سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک وفاقی سطح پر فیصلہ شدہ اور ملک گیرمتنازع ایکٹ کے حوالے سے صوبائی سطح کے ایک عہدیدار کو اختیار کیوں دیا جارہا ہے بہرحال جاری سیاسی حالات میں اس کی وجہ سمجھنا تو دشوار امر نہیں جس سے قطع نظرحکومت پراپنے ایک اور فیصلے سے اچانک واپسی پرسوالات تو بہرحال اٹھیں گے اور تنقید بھی ہو گی یہی عمل اگرسول سوسائٹی اور تنظیموں کی جانب سے تنقید پر اختیار کیاجاتا تو یہ سراہے جانے کا باعث امر ہوتا۔حکومت کے لئے اس صورتحال میں سبق یہ ہے کہ آئندہ سوچے سمجھے بنا اور متعلقہ آئینی فورمز ودیگرمتعلقین کو اعتماد میں لئے بغیر کوئی قدم نہ اٹھایا جائے اور اگر کسی اقدام سے رجوع کی ضرورت پڑے تو باوقار اندازمیں ایسا کیا جائے تاکہ بلاوجہ کی تنقید اور استہزا سے بچا جا سکے۔
او پی ڈی کو شامل کرنے کاانقلابی فیصلہ
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوامحمود خان کی جانب سے صحت کارڈ پلس سکیم کو مفت علاج معالجے کا ایک جامع پروگرام بنانے کے لئے اس میں او پی ڈی کوریج کے علاوہ مزید بیماریوں کے علاج کو شامل کرنے کا اعلان یقینا خوش آئند اور عوام کو صحت کی مفت سہولتوں کی فراہمی کے حوالے سے اہم قدم ہے ۔صحت کارڈ پر مفت علاج کی سہولتوںکی افادیت اور عوام کی جانب سے اس پر اطمینان کا اظہار کرنے کے حوالے سے کوئی شبہ باقی نہیں البتہ مریضوں کوبہترعلاج کے حصول میں مدد کے لئے اس میں او پی ڈی کو بھی شامل کرنے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی اور عوام کی جانب سے اس کا مطالبہ کیا جارہا تھا جس پر حکومت کا مثبت طرز عمل قابل تحسین ہے جس کے نتیجے میں اب او پی ڈی کے مریضوں کو مفت ادویات کی سہولت ملنے جارہی ہے البتہ یہ واضح نہیں کہ یہ عمل کب سے شروع ہوگا پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس(پائیڈ)کی نئی تحقیقاتی رپورٹ میںبھی اس امر کی نشاندہی کی گئی تھی کہ صحت کارڈ سے بھرپور فائدہ صرف تب ہی اٹھایا جا سکتا ہے جب او پی ڈی یعنی شعبہ بیرونی مریضاں پر بھی اسے استعمال کیا جا سکے۔اس وقت صحت سہولت پروگرام کے تحت صحت کارڈ صرف ان ڈور ٹریٹمنٹ کے اخراجات ادا کرتا ہے ریسرچ سکالر کے مطابق کئی سکینڈے نیوین ممالک جیسے ناروے، سویڈن، ڈنمارک وغیرہ میں صحت کی تمام سہولیات حکومت کی جانب سے مفت دی جاتی ہے جبکہ امریکہ جیسے ممالک میں شہری تمام صحت کے اخراجات انشورنس کے ذریعے پورے کرتے ہیں، مگر پاکستان کا صحت سہولت پروگرام ان میں سے ایک کے ساتھ بھی مکمل مطابقت نہیں رکھتا۔ان تمام عوامل کا حکومت کو ازسر نو جائزہ لینا چاہئے اور ایسی سہولت متعارف کرانی چاہئے جس سے پوری آبادی کو یقینی فائدہ ملے۔
آبنوشی کا مسئلہ فوری حل کرنے کی ضرورت
پشاور کے علاقے رام داس بازار کے مکینوں کی جانب سے آبنوشی اور نکاسی آب کی خدمات کے بلوں کی باقاعدہ ادائیگی کے باوجود ان سہولتوں سے محرومی کی شکایت صرف اس علاقے کے عوام کی شکایت نہیں بلکہ شہری آبادی کی اکثریت کو اس حوالے سے شکایات ہیںرام داس بازار میںپانی کے کم پریشر کی بنیادی وجہ آب رسانی کے پائپوں کا رسائو اور ٹیوب ویل بروقت نہ چلانے کا بتایا گیا ہے یہ دو مسائل ایسے نہیں جن پر ذرا سی توجہ دے کر شہریوں کی شکایات اور مشکلات کا ازالہ کیا جا سکے توقع کی جانی چاہئے کہ مسئلے کی نشاندہی کے بعد متعلقہ حکام نے اس کا فوری نوٹس لیا ہو گا اور اورعوامی م سائل کے حل کے لئے فوری اقدامات اٹھائیں جائیں گے ۔

مزید پڑھیں:  افغانستان سے ایک بار پھر مطالبہ