پٹرولیم بحران کے خدشات کا بروقت تدارک کی ضرورت

وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے پٹرولیم قیمتوں میں کمی کے حالیہ اعلان سے پیدا ہونے والے قیمتوں کے فرق کی ادائیگی کے طریقہ کار کو حتمی شکل دینے میں حکومت اور آئل انڈسٹری ناکام رہی، جس سے مصنوعات کی قلت کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔آئل انڈسٹری نے حکومت کو مطلع کیاہے کہ ان کے لئے منفی مارجن اور مالی رکاوٹوں کے ساتھ سپلائی چین کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔امر واقع یہ ہے کہ پٹرولیم ڈویژن اور اوگرا، دونوں کی جانب سے گزشتہ ایک ہفتے سے ایک دوسرے کو خطوط لکھ کر ڈیزل کی ممکنہ قلت سے خبردار کیا جاتا رہا۔دوسری جانب صورتحال یہ ہے2009کے بعد سے کمپنیوں کے بقایا جات ابھی باقی ہیں اور نومبر کے پہلے چاردنوں میں مزید بڑھ گئے جب وزیر اعظم نے قیمتوں میں اضافے میں تاخیر کی۔کمپنیوں کو بین الاقوامی قیمتوں میں اضافے ‘روپے کی قدر میں کمی’ زیادہ درآمدی پریمیئم اور تقریباً ایک کھرب30ارب روپے کے گردشی قرضے کی وجہ سے پہلے ہی مالیاتی مسائل کا سامنا ہے جبکہ بلاتعطل سپلائی کو یقینی بنانے اور ورکنگ کیپیٹل کی ضروریات کا انتظام کرنے کے لئے، انڈسٹری نے پہلے ہی اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ ان کے کریڈٹ کو بڑھانے میں تعاون کرے۔مزید برآں جولائی تک قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ ہائی اسپیڈ ڈیزل اور پیٹرول کے لئے پی ڈی سی میں مزید اضافے کا باعث بنے گا، کیونکہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں حالیہ جغرافیائی سیاسی صورتحال کی وجہ سے بڑھ رہی ہیں۔ان وجوہات کی بناء پر آنے والے فصل کی کٹائی کے سیزن کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی کمی کا ایسا سنگین بحران پیدا ہو جائے گا جس کا جون2020میں سامنا کرنا پڑا تھا۔وزیراعظم عمران خان نے یقینا نیک نیتی اور عوام کو ریلیف دینے کے لئے پٹرولیم مصنوعات کے قیمتوں میں کمی لا کرآئندہ بجٹ تک رکھنے کا جواعلان کر چکے ہیں عوامی نقطہ نظر سے اسے نہ سراہے جانے کی کوئی وجہ نہیں عوام مہنگائی کے ہاتھوں جان بلب ہو چکے ہیں اور وہ کسی بھی قیمت پر ریلیف اور آسانی کے منتظر ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے اعلان کے ساتھ ہی یہ سوالات اٹھنا شروع ہو گئے تھے کہ پٹرولیم مصنوعات کی کمی اورضمن ضمن میں مثالی مراعات دینے کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے اور حکومت ان کو کیسے پورا کرے گی۔اس حوالے سے اگرچہ وزارت خزانہ کی جانب سے مبہم سی وضاحت کی گئی تھی جس سے قطع نظرپٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی حالیہ اعلان سے پیدا ہونے والے فرق کی ادائیگی کا سنجیدہ سوال سامنے ہے آئل انڈسٹری کی جانب سے جس امر کی نشاندہی کی گئی ہے مسئلہ صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ ایک جانب جہاں بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور بحران کی کیفیت میں روز بروز اضافہ
ہو رہا ہے ایسے میں پاکستان میں الٹی گنگا بہانا کیسے ممکن ہو گا۔اس حوالے سے حکومت کی جانب سے کسی ٹھوس لائحہ عمل کا اعلان سامنے نہیں آیا ہے بہرحال پٹرولیم قیمتوں میں کمی کے حالیہ اعلان سے پیدا ہونے والے قیمتوں کے فرق کی فوری ادائیگی کا بندوبست نہ کیا گیا تو آئل انڈسٹری کے پاس خریداری کے لئے وسائل کہاں سے آئیں گے اور مناسب اور بروقت اسٹاک یقینی نہ بنایا گیا تو ملک بھرمیں پٹرولیم مصنوعات کی قلت کایقینی خدشہ ہے آنے والے فصل کی کٹائی کے سیزن میں ڈیزل کی مانگ میں اضافہ کے پیش نظر اس کا خاص طور پر کافی ذخیرہ موجود ہونے کی ضرورت ہے جو محولہ صورتحال میں ممکن نہیں اس ضمن میں پٹرولیم ڈویژن اور اوگرا دونوں کی جانب سے ڈیزل کی ممکنہ قلت کے خدشات گزشتہ ایک ہفتے سے ظاہر کئے جارہے ہیںتازہ صورتحال میں ادائیگیوں اور فرق کے رقم کی ادائیگی کے پہاڑ جیسے مسئلے سے قطع نظر بھی صورتحال کوئی حوصلہ ا فزاء نہیں بلکہ 2009ء کے بعد سے کمپنیوں کے بقایا جات چلے آرہے ہیں اور نومبر کے پہلے چار دنوں میںان بقایاجات میں اس وقت کافی اضافہ ہوا جب وزیر اعظم نے قیمتوں میں اضافے کی منظوری میں تاخیر کیاانڈسٹری کو روپے کی قدر میں کمی زیادہ درآمدی پریمئم اور تقریباً 1کھرب 30 ارب روپے کے گردشی قرضے کی وجہ سے پہلے ہی مالیاتی مسائل درپیش ہیں جبکہ بلاتعطل سپلائی یقینی بنانے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ورکنگ کیپٹل کی بروقت موجودگی یقینی ہو۔ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم کے اعلان سے قبل کوئی تفصیلی ہوم ورک نہیں کیا گیا اور کسی منصوبہ بندی کے بغیر اچانک اعلان کیا گیا جسے اب سنبھالنا مشکل ہوتا جارہا ہے صورتحال پریشان کن صورت اختیار کر سکتی ہے۔ مناسب ہوم ورک کئے بغیروزیر اعظم کے اعلان سے ایک نئے بحران کے خدشات بڑھ رہے ہیںویسے بھی مافیا بحران ہی کی تلاش اور منصوبہ بندی میں رہتی ہے ان کو موقع چاہئے ہوتا ہے بہانہ ملنے پر وہ کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کرتے۔2020میں پٹرولیم منصوعات کے بحران سے جس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ زیادہ پرانی بات نہیں اس تمام منظر نامے پرغور کرکے فوری لائحہ عمل طے کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جاری سیاسی صورتحال کے تناظر میںاس فیصلے اور بغیر تیاری کے اعلان آئندہ حکومت کے لئے ممکنہ طور پر کسی ٹریپ سے کم نہیں جن کے لئے یہ آگے کنواں پیچھے کھائی ثابت ہوسکتا ہے بہرحال یہ ممکنہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے منظر نامے کا ایک امکان ہے ضروری نہیں کہ ایسا ہی ہوجس سے قطع نظرحکومت خواہ جس کی بھی ہومعاشی ‘ ا قتصادی اور ایسے مالی معاملات جس کے ملک و قوم اور عوام پر اثرات مرتب ہوتے ہوںاس کا فیصلہ سوچ سمجھ کر اور اس کے اثرات و امکانات کے پورے جائزے کی ضرورت ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ حکومت اس حوالے سے فوری اور خصوصی توجہ دے گی تاکہ ممکنہ بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

مزید پڑھیں:  اردو میڈیم یا انگریزی میڈیم ؟