تحریک عدم اعتماد پس پردہ معاملات

سیاست کا میدان گرم ہے اور اسلام آباد میں جگہ جگہ سیاستدان ٹولیوں کی شکل میں گھومتے ملتے ہیں۔ پاکستان میں تبدیلی اور سیاست کے حوالہ سے میرا ذاتی موقف میں پہلے ہی بیان کر چکا ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہم نہ تین میں ہیں نہ تیرہ میں ہیں۔ گزشتہ روز صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں جمعیت علمااسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان جس طرح پریقین اور پراعتماد نظر آئے تو شک گزرا کہ کچھ تو ہے۔ لیکن جب وزیراعظم کا قوم سے خطاب یاد کیا تو معلوم ہوا کہ اس بار معاملہ سنجیدہ ہے۔ دورہ روس کے بعد وزیراعظم کی آرمی چیف سے ملاقات مگر تاخیر سے ہوئی اور اس وجہ سے وزیراعظم کا خطاب بھی ملتوی کیا گیا۔ جب ملاقات ہوئی تو اس کے بعد وزیراعظم نے ریکارڈڈ خطاب کیا اور کچھ ذرائع کا دعوی ہے کہ اس خطاب سے ایک جملہ بھی حذف کیا گیا ہے جو وزیراعظم نے نہیں کیا۔ وزیراعظم کی چودھری برادران سے ملاقات اور اپنے دیرینہ ساتھی جہانگیرخان ترین کو ٹیلی فون اس دوران وزیردفاع پرویزخٹک سے خوشخبریوں کی خبر لیک ہونے پر ناراضگی اور سب سے بڑھ کر ایک سویلین حساس ادارے پر تحریک اعتماد کے حوالہ سے وزیراعظم کا اعتماد وہ سن گن ہے کہ جس سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم دبائو کا شکار ہیں۔ اب خبر یہ آچکی ہے کہ اپوزیشن کے تین بڑوں نے بڑے فارمولے پر اتفاق توکر لیا ہے لیکن جزیات پر ڈیڈ لاک ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف نے معمول کی ایک ملاقات میں ایک بااثر شخصیت سے ”نیوٹریلٹی”کے بارے میں استفسار کیا تو انہیں جواب دیا گیا کہ ادارے آئین کے پابند مکمل غیرجانبدار ہیں۔ اس کے بعد زرداری صاحب نے کمر کس لی۔ اس دوران اپوزیشن نے حکمران اتحاد کے ایم کیو ایم، ق لیگ اور تحریک انصاف میں موجود جہانگیرخان ترین گروپ سے بھی ملاقاتیں کیں۔جب میڈیا پر اتحادی جماعتوں سے ملاقاتوں کی خبریں چل رہی تھیں اور حکومت ان اتحادیوں کی خوشنودی حاصل کرنے کی حکمت عملی سوچ رہی تھی اس وقت اپوزیشن جماعتیں خود تحریک انصاف کے اندر اپنے موسمی پرندے واپس لانے کے لیئے درپردہ جوڑ توڑ کر رہی تھی۔ میڈیا پر چوہدری بردران کو بادشاہ گر کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا وہاں ن لیگ تحریک انصاف کے اندر موجود اپنے پرانے گھوڑوں کو سدھا رہی تھی یہی کام پیپلزپارٹی بھی کر رہی تھی۔ یہاں تک کہ مولاناصاحب کا اندازہ ہے کہ پختونخوا سے تعلق رکھنے والے دو ایم این ایز بھی آئندہ انتخابات میں ٹکٹ کی فراہمی کی یقین دہانی پر عدم اعتماد میں ساتھ دیں گے۔ اس دوران ن لیگ نے فورا انتخابات کی پخ ڈال دی۔ ق لیگ سے پیپلزپارٹی نے پنجاب کی وزارت اعلی چوہدری پرویز الہٰی کو دینے کا عندیہ بھی دیا۔ لیکن ن لیگ نے سوچنا شروع کر دیا کہ یہ پیپلزپارٹی کا ٹریپ ہو سکتا ہے۔ اگر ڈیڑھ سال حکومت وہ مرکز میں سنبھالتے ہیں اور پنجاب چوہدری برادران کے پاس جاتا ہے تو وہ آئندہ انتخابات میں موجودہ نظام کی خامیوں کے بوجھ کے ساتھ اتریں گے بلکہ پنجاب پر بھی ان کی گرفت کمزور ہوچکی ہو گی۔ ن لیگ میں اس اختلاف کے محرک سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی اور مریم نواز تھیں۔ تب پیپلزپارٹی نے پیغام دیا کہ ٹھیک ہے پھر یہی نظام چلتا رہے گا اور نومبر سے پہلے پہلے ایک اہم عہدے پر تعیناتی کا اختیار وزیراعظم عمران خان کو ہوگا۔بڑے پلان پرمیاں نوازشریف نے مولانا کو بالآخر اختیار دے دیا صرف یہ کہہ کر کہ اگر فورا انتخابات کا مشترکہ فیصلہ ہوا تو جس کو مرضی وزیراعظم، سپیکریا وزیراعلی لگا دیں لیکن اگر اسمبلی نے مدت پوری کرنی ہے تو پھر پہلے ان سے بات کی جائے گی۔ اس طرح شاہد خاقان عباسی اور مریم نواز مدت کی تکمیل پر ق لیگ کو وزارت اعلی دینے کے مخالف ہیں۔ اس دوران جہانگیرخان ترین بھی لندن علاج کے لئے پہنچ گئے۔درحقیقت جہانگیرخان ترین ایک صنعتکار ہیں اس لیئے اپنے اراکین کے لیئے مستقبل کے تعاون کے علاوہ کچھ ”اقتصادی” فیصلے بھی ضروری تھے۔ جب اپوزیشن کو لگا کہ ق لیگ تاحال دیوار پر بیٹھی ہے تو انہیں وہیں چھوڑ دیا اس طرح وزیراعظم کو ان پر کچھ کام کرنے کا موقعہ مل گیا۔۔ نورکنی کمیٹی نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیئے 182 اراکین کی حمایت کا تخمینہ پیش کر دیا ہے۔ اس میں تحریک انصاف کے اکثریتی اراکین کا تعلق جنوبی اور وسطی پنجاب سے بتایا گیا ہے۔ اس نورکنی کمیٹی میں فاروق ایچ نائیک جیسے قانون دان بھی ہیں کہ جنہوں نے پارلیمان اور آئین کی قانونی پیچیدگیوں کے حوالہ سے بھی جائزے کے ساتھ سفارشات مرتب کی ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے دوران سپیکر کے آئینی کردار کے حوالہ سے تحریک کو درپیش خطرات کا ذکر کیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی ذرائع نے اس حوالہ سے پارٹی کے پلان بی اور سی کی بھی تصدیق کی ہے۔ اس حوالہ سے بتایا گیا کہ مولانا نے آصف علی زرداری کو درخواست کی کہ پیپلزپارٹی کا مارچ موخر کیا جائے تاہم انہیں بتایا گیا کہ اس پر ضرور غور کیا جائے گا۔ لیکن درحقیقت یہ پیپلزپارٹی کے میگا پلان کا حصہ تھا۔ وہ یہ کہ پارلیمنٹ کے اندر کی غیریقینی صورتحال سے نمٹنے کے لیئے پارلیمنٹ کے باہر عوامی دبائو پیش رفت میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگئی تو اس کا عوامی کریڈٹ پیپلزپارٹی لے جائے گی اور اگر ناکام ہوگئی تو ورکرز متحرک ہوچکے ہوں گے مزاحمت کے لئے کیونکہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام بھی ہو جاتی ہے تو فارن فنڈنگ کیس ایک فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ حالت یہ ہے کہ اگر اس کے ممکنہ نتائج کا جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف کی جان اگر تحریک عدم اعتماد سے چھوٹ سکتی ہے تو یہ خسارے کا سودا نہیں ہوگا۔ فارن فنڈنگ کیس سے پلان بی کی تکمیل ہوگی۔ اگر اس سے بھی یہ حکومت بچ نکلنے میں کامیاب ہوتی ہے تو ملک بھر میں نظام کو جام رکھنے کا آپشن موجود ہے جس سے تحریک انصاف کا انتخابی سال ان کی سلو پوائزننگ موت کی طرح گزرے گا۔ گو کہ اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کی مکمل کامیابی کا یقین ہے اور اندرون خانہ یہ بات ہورہی ہے کہ 23مارچ کو شاید پی ڈی ایم کے مارچ کی نوبت ہی نہیں آئے۔لیکن عارضی ڈیڈلاک تحریک کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

مزید پڑھیں:  جعلی لائسنس تحقیقات میں پیشرفت