مری تلاش میں نکلے ہیں کشتیاں لے کر

کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ لکھا ہوا کالم مکمل طور پر شائع نہیں ہوتا یعنی اس کا کچھ حصہ چھپنے سے رہ جاتا ہے گزشتہ کالم کے ساتھ بھی یہی ہوا یعنی ابھی پائیڈ پائیپر( بانسری نواز) کا تذکرہ جاری تھا مگر کالم کے لئے مختص جگہ ختم ہو گئی تھی اور کالم کا آخری حصہ شائع ہونے سے رہ گیا تھا لیکن اس کا احساس لوگوں کو زیادہ نہیں ہو سکا کیونکہ جہاں سے جاری تحریر کو بہ امر مجبوری ایڈیٹوریل صفحے کے نگران نے کاٹا تھا اس میں کمال مہارت ضرور شامل تھی ‘ بہرحال چند آخری سطور میں صرف یہ ذکر تھا کہ بانسری نواز دھن بجاتے ہوئے ایک چٹان کے قریب جا کر رک جاتا ہے’ بچے اس کے پیچھے پیچھے جا کر رکتے ہیں ‘اچانک چٹان اپنی جگہ سے سرکتی ہے اور پہاڑی میں ایک غار نمودار ہوجاتا ہے ‘ بانسری نواز غار کے اندر داخل ہوتا ہے اور قصبے کے سارے بچے بھی اس کے پیچھے غار میں داخل ہوجاتے جس کے بعد چٹان ایک بار پھرسرک کر غار کے دہانے کو بند کر دیتی ہے ‘ صرف ایک بچہ جو معذور ہوتا ہے اور لنگڑا کر چلنے کی وجہ سے پیچھے رہ جاتا ہے وہ بچ جاتا ہے ‘ اس کے بعد قصبے والے لاکھ کوشش کرتے ہیں مگر غارکا دہانہ نہیں کھلا ‘ تب سے(اب تک ؟ ) قصبے کے لالچی مکین اپنے کئے پر شرمندہ ہو کر کف افسوس ملتے رہ جاتے ہیں ‘ اور بعد کے سالوں میں اپنے کھوئے ہوئے بچوں کا تذکرہ کرتے ہوئے آنے والی نسلوں کو یہ کہانی سناتے رہتے ہیں۔
تماشا دیکھ رہے تھے جوڈوبنے کا میرے
مری تلاش میں نکلے ہیں کشتیاں لے کر
اب چلتے ہیں آج کے موضوع کی جانب خیبر پختونخوا حکومت نے رکشہ اور لوڈر یعنی تین پہیوں والی گاڑیوں کی تیاری و فروخت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس سے پہلے ناکارہ اور کٹھارہ بسوں اور ویگنوں کو سڑک سے ہٹانے کے لئے ٹرانسپورٹ مالکان کے ساتھ ان ناکارہ بسوں وغیرہ کی خریداری کا معاملہ طے کیا گیا تھا مگر اس قسم کے معاہدوں پر مکمل عملدرآمد میں بوجوہ رکاوٹیں سامنے آتی رہیں ساتھ ہی رکشوں کو جی ٹی روڈ سے ہٹانے کی خواہش اور کوششیں بھی (تاحال) ناکامی سے دو چار ہو چکی ہیں ‘ اس کی کئی وجوہات بھی ہو سکتی ہیں ‘ ایک تو یہ ہے کہ رکشہ غریب لوگوں کی سواری ہے اور رکشہ کے متبادل کے طور پر ٹیکسی سے سفر کرنا زیادہ مہنگا پڑ سکتا ہے ‘ خصوصاً پٹرول کی قیمت میں ہر پندرہ روز بعد مسلسل اضافے کی وجہ سے غریب لوگ رکشہ ہی استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں ‘ دوسری وجہ یہ ہے کہ شہر میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ ٹیکسیاں وہاں آسانی سے آجا نہیں سکتیں ‘ اسی وجہ سے رکشے پر پابندی لگانے میں سرکار کو اب تک نمایاں کامیابی نہیں ہو سکی ‘ پشاور شہر کے اندر چارسدہ ‘ نوشہرہ ‘ مردان وغیرہ کے رکشے چل رہے ہیں ‘ بلکہ ایک ہی نمبر کے کئی کئی رکشے بھی دندناتے رہتے ہیں جبکہ ان کے خلاف کوئی بھی ٹریفک ا ہلکار ایکشن لینے میں اب تک کامیاب نہیں ہو سکا۔ اسی طرح جہاں تک لوڈر کا تعلق ہے تو یہ آج سے چند سال قبل چلنے والی گدھا گاڑیوں اور ہتھ ریڑھیوں کے متبادل کے طور پر استعمال ہونا شروع ہوئے کیونکہ ان گدھا گاڑیوں اور ہتھ ریڑھیوں کی وجہ سے نہ صرف گدھوں اور خچروں کی وجہ سے سڑکیں ان جانوروں کے لید سے آلودہ ہو جاتی تھیں بلکہ ٹریفک کی روانی بھی بری طرح متاثر ہوتی تھی ۔ اب یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ لوڈر تو ٹریفک میں رکاوٹ ڈالنے کا باعث نہیں بلکہ تیزی سے سامان ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے میں مدد گار ہے ‘ چلیں رکشے تو شہر کی خوبصورتی میں کار آمد نہیں ہو سکتے ‘ لیکن لوڈر؟ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کے مینوفیکچررز پر اچانک پابندی لگانے سے ہزاروں مزدور ‘ ڈرائیور وغیرہ متاثر ہونے کا کیا کوئی نوٹس دیا گیا تھا ؟ دوسرے یہ کہ ان اشیاء کے کارخانے از خود تو وجود میں نہیں آئے ‘ سرکار سے اس کاروبار کے لئے باقاعدہ لائسنس حاصل کئے گئے ہوں گے ‘ بھاری سرمایہ کاری ہوئی ہو گی سرمایہ کاری میں یقینا بینکوں سے بھاری قرضے لئے جا چکے ہوں گے ‘ اب ا ن قرضوں کی واپسی کا کیا بنے گا؟ جو لوگ بے روزگار ہوں گے ان کو متبادل روزگار مہیا کرنے کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں ؟ پھر موجودہ وقت میں رکشے ‘ لوڈر وغیرہ جو سڑکوں پر رواں دواں ہیں ‘ ان کی جگہ کیا متبادل انتظامات سوچے گئے ہیں ‘ اگرچہ خبر میں فی الحال رکشوں ‘ لوڈرز یعنی تین پہیوں والی ٹرانسپورٹ خواہ وہ ا نسانوں کے نقل و حمل میں استعمال ہو رہے ہیں یا پھر باربرداری کے لئے ‘ ان کی مزید تیاریوں پرپابندی عاید کر دی گئی ہے ‘ مگر بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ظاہر ہے اگر ان کی منیوفیکچرنگ پر پابندی لگادی گئی ہے تو آگے چل کر جو رکشے ‘ لوڈر وغیرہ سڑکوں پر موجود ہیں ان پر پابندی کی سوچ بھی کہیں نہ کہیں ‘ کسی نہ کسی سطح پر ضرور پنپ رہی ہو گی اور اگر ایسا ہے تو پھر ان کو بھی ناکارہ اور کٹھارہ بسوں ‘ویگنوں وغیرہ کی طرز پر حکومت خرید کر سڑکوں سے ہٹانے کا فیصلہ یقینا کر سکتی ہے ‘ مگر یہ ایک بہت بڑا اور اہم فیصلہ ہوگا ‘ جس کے نتیجے میں جیسا کہ اوپر کی سطور میں گزارش کی جا چکی ہے ‘ شدید بے روزگاری سامنے آسکتی ہے ‘ کیونکہ مینوفیکچررز کوکارخانے بند کرنے کا حکم دینے سے بھی بے روزگاری تو بڑھے گی اور ان کارخانوں میں کام کرنے والے سینکڑوں افراد اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھوئیں گے ‘ ملک میں پہلے ہی بے روزگاری کے حوالے سے جو صورتحال ہے اس پر ہاہاکار مچی ہوئی ہے ‘ اور اگر رکشوں ‘ لوڈروں پر بھی پابندی عاید کر دی گئی تو اس کے نتیجے میں مزید ہزاروں افراد سڑکوں پر آجائیں گے ‘ اور یہ تو ایک ا صولی بات ہے کہ ایک ایک بے روزگار کے ساتھ کم از کم پانچ سے سات افراد وابستہ ہوتے ہیں ‘ یعنی ان کے خاندان کے افراد کی تعداد اتنی ہی ہوسکتی ہے ‘ یوں مجموعی طور پر ان کی تعداد لاکھوں تک جا پہنچتی ہے ‘ ظاہر ہے اتنے افراد کے لئے روزی روٹی ‘ کرائے کے گھر ‘ بجلی پانی گیس کی فراہمی پر اٹھنے والے اخراجات ‘ بچوں کے سکولوں کی کتابیں ‘ بیمار والدین (خصوصاً)اور بیوی بچوں کی صحت پر خرچ کرنے کے لئے رقم کی ضرورت اہم مسائل ہیں ‘ ان تمام ضروریات کے بارے میں سرکار کو ہمدردانہ سوچ ا پنانی چاہئے ‘ مگر سوچے سمجھے بغیر اچانک ایک حکم جاری کرنا کیا انصاف کے تقاضے پورے کرتا ہے؟

مزید پڑھیں:  مفاہمت کا سنہرا موقع