تحریک عدم اعتماد کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

اپوزیشن کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کے بارے میں شور و غوغا کافی دنوں سے سننے میں آ رہا تھا لیکن حال ہی میں مولانا فضل الرحمن کے ایک بیان نے تہلکہ برپا کر دیا ہے جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ آئندہ 48گھنٹوں میں تحریک عدم اعتماد پیش کر دی جائے گی اور قوم کو ایک نئی خوشخبری ملے گی اس سلسلے میں ہمارا ہوم ورک مکمل ہے۔ مولانا کے اس بیان نے سیاست کے خاموش سمندر میں ایک نیا تلاطم پیدا کر دیا ہے۔ وہ ایک ہفتہ سے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں اور آصف زرداری کی طرف سے انہیں پیغام ملا تھا کہ جب تک تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوتی اس وقت تک وہ اپنا پڑاؤ اسلام آباد میں ہی رکھیں۔تحریک عدم اعتماد کے بارے میں اپوزیشن تین سالوں سے منقسم چلی آرہی تھی کیونکہ پیپلز پارٹی شروع سے ہی اس پر زور دے رہی تھی کہ استعفوں کی بجائے عدم اعتماد کے ذریعے عمران خان کو اقتدار سے بیدخل کیا جائے لیکن ن لیگ میں موجود نواز شریف گروپ اور مولانا فضل الرحمن سمیت پی ڈی ایم کی تمام چھوٹی پارٹیاں استعفوں کے حق میں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک کی بیل کبھی منڈھے نہیں چڑھے گی کیونکہ مقتدر قوتیں جنہوں نے نہ صرف تحریک انصاف کو اقتدار کے سنگھاسن پر لانے میں اہم کردار ادا کیا ہے بلکہ اس کو چلانے میں بھی اپنی پوری قوت صرف کئے ہوئے ہیں لہذا ان کے ہوتے ہوئے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ایک دیوانے کا خواب ہی ہو گی۔یہی وجہ تھی کہ گزشتہ سال جب پی ڈی ایم کے ایک اجلاس میں متفقہ طور پراستعفوں کے حق میں قرار داد پیش کی گئی تو پیپلز پارٹی نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے نہ صرف پی ڈی ایم سے اپنی راہیں جدا کر لیں بلکہ نواز شریف کی ذات کو بھی ہدفِ تنقید بنانا شروع کر دیا۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی جوابی وار کئے اور آصف زرداری کو نہ صرف اپوزیشن کو منقسم کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا بلکہ اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ قرار دیا۔یوں اپوزیشن کی تقسیم سے حکومت نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور اپوزیشن کے خلاف اس کا رویہ نہ صرف جارحانہ ہو گیا بلکہ ان کے خلاف اس کے مقدمات میں بھی اور شدت آ گئی۔لیکن یہ صورتحال اس وقت تبدیل ہو گئی جب حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین اختلافات کی ہوائیں چلنا شروع ہوئیں اور یہ تاثر پھیلا کہ اسٹیبلشمنٹ نے اب حکومت سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے غیر جانبداری کی طرف بڑھنا شروع کر دیا ہے۔چنانچہ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ ماہ جب آصف علی زرداری اور شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ شخصیت سے الگ الگ انکے گھر پر ملے تو اس نے دونوں کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت سے لڑائی کی صورت میں اسٹیبلشمنٹ بالکل غیر جانبدار رہے گی۔ان کی اسی یقین دہانی کی بدولت پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مابین دوریاں نزدیکیوں میں بدل گئیں اور اختلافات ملاقاتوں میں بدل گئے ۔قوم اس وقت انگشت بدندان رہ گئی جب نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے اپنے دیرینہ استعفوں کے موقف سے دستبردار ہوتے ہوئے آصف زرداری کے عدم اعتماد کے موقف کے حامی بن گئے۔اس سلسلے میں سیاسی جوڑ توڑ کیلئے سیاسی جماعتوں سے رابطوں کی ذمہ داری آصف زرداری کو سونپی گئی جنہوں نے اس کو بطریق احسن نبھانے کیلئے حکومت کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم اور قاف لیگ کے رہنماؤں کے علاوہ جماعت اسلامی کے قائد سراج الحق سے بھی ملاقات کی اور ان کو اس تحریک میں شمولیت پر آمادہ کرنے کی کوشش کی۔ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی اس تحریک میں ترپ کے پتے کی طرح ق لیگ کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے بلکہ کہا جا رہا ہے کہ عدم اعتماد کا فیصلہ ق لیگ کے ووٹوں پر ہی ہو گا۔ ق لیگ کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی بدترین مخالف جماعت ن لیگ کے صدر شہبازشریف کو بھی اس کی حمایت کیلئے 22سال بعداس کے دروازے پر جانا پڑا۔ اگرچہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ق لیگ کی حمایت کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن ق لیگ نے ابھی تک کسی کی واضح حمایت نہیں کی کیونکہ اس کے رہنما تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو والی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور نہایت پھونک پھونک کر قدم رکھ رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے 172ووٹ درکار ہیں۔ تحریک انصاف کو اتحادیوں سمیت 178اراکین کی حمایت حاصل ہے جس میں تحریک انصاف کے155ایم کیو ایم7 بی اے پی5 ق لیگ5 جی ڈی اے3 اور عوامی مسلم لیگ ایک شامل ہیں جبکہ حزب اختلاف کے کل اراکین کی 162 تعداد ہے جس میں ن لیگ 84، پیپلز پارٹی 57، جے یو آئی15، بی این پی 4، عوامی نیشنل پارٹی ایک اور دو آزاد اراکین بھی شامل ہیں۔ یوں حزِب اختلاف کو سادہ اکثریت کیلئے صرف 10ووٹ درکار ہیں لیکن اس نے اس کے حصول کیلئے سارا زور ق لیگ پر صرف کیا ہوا ہے لیکن بعض تجزیہ کار اسے حزبِ اختلاف کی بڑی غلطی قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک چوہدری برادران حزبِ اختلاف کی بجائے حکومت کو ترجیح دیں گے اس کی بڑی وجہ ایک تو ان کی شریف برادران پر بد اعتمادی ہے ۔

مزید پڑھیں:  ہسپتالوں کوشمسی توانائی پر منتقل کرنے کی ضرورت