بدلتی سیاسی صورتحال

نوجماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان تحریک عدم اعتماد کے ذریعے وزیراعظم عمران خان کی بے دخلی کی صورت میں قبل از وقت انتخابات پر اتفاق رائے میں پیش رفت کے باعث سیاسی صورتحال میں مزید تبدیلی آتی دکھائی دے رہی ہے ۔ سیاسی حلقوں نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں عدم اعتماد کے اقدام کی کامیابی کے بعد قبل از وقت انتخابات پر تقریباً متفق ہو چکی ہیں۔ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی بعض انتخابی اصلاحات کے بعد فوری انتخابات پر رضامندی کا اشارہ دے دیا ہے۔اپوزیشن کی وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی کوششوں میں مسلم لیگ(ن)اور پی پی پی کے درمیان جلد انتخابات ایک اہم موڑ رہے ہیں ۔پی پی پی کے چیئرمین آصف زرداری بھی اب جلد انتخابات پر آمادہ نظر آتے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین پرسن بلاول بھٹو زرداری قبل ازیں پشاور میں پریس کانفرنس میں بھی یہی کہہ چکے ہیں کہ ہم سب کی سوچ یہ ہے کہ ہمیں مختصر مینڈیٹ چاہیے اور ہم سب مل کر الیکٹورل ریفارمز پاس کروا دیں۔ تاکہ ماضی کے الیکشن جیسی صورتحال نہ ہو اور فری اینڈ فیئر الیکشن ہو۔اگرچہ جاری سیاسی فضا سے تحریک عدم اعتماد کی تیاریوں میںتیزی نظر آتی ہے لیکن اس کے باوجود بہت سارے معاملات میںابھی حزب اختلاف میں ہم آہنگی باقی ہے لیکن اب یہ طے نظر آتا ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات کی تیاری پر متفق ہیںجبکہ حکومت بھی جلسوں کے ذریعے خود کو اسی کے لئے تیار کر رہی ہے ۔ یوں ملک میں اچانک انتخابی مہم کی تیاری چھا گئی ہے ۔حزب اختلاف بالاخر اس امر پر متفق ہو گئی ہے کہ ان کو مختصر مینڈیٹ ملے تو ا تفاق سے انتخابی اصلاحات کئے جائیں تاکہ ماضی کے انتخابات جیسی صورتحال نہ ہواور آزاد و شفاف الیکشن کا انعقاد ہو بار بار کے مشکوک انتخابات اورنتائج تسلیم نہ کئے جانے سے جو صورتحال پیدا ہوتی ہے اس کا واحد حل یہی نظر آتا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اتنا با اختیار بنا دیا جائے کہ عملی طور پر اس آئینی ادارے کے انتخابی عمل میں کوئی شریک نہ ہو اور نہ ہی کوئی اس پر اثر انداز ہو سکے اس وقت اگر موجودہ حکومت اور حزب ا ختلاف کے درمیان اختلافات کا جائزہ لیا جائے تو اس کی بنیاد غیر منصفانہ اور غیر شفاف الیکشن ہی کا الزام ہے انتخابی نتائج کو شروع دن ہی سے تسلیم نہیں کیا گیا اور اس کا نتیجہ آج سب کے سامنے ہے اس طرح کی صورتحال کو آئندہ معدوم کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات اور قوانین میں ترمیم کے بعد اس حوالے سے حزب اختلاف اور حزب اقتدار کی جماعتیں ایک متفقہ فیصلہ کریں جس کے بعد انتخابات کا انعقاد ہو اور اس کے نتائج سب کے لئے قابل قبول ہوں تو پھر اس صورتحال سے نکلا جا سکے گا۔اگرچہ سیاسی صورتحال لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہونے والی ہوتی ہے اور اس حوالے سے کوئی حتمی اندازہ لگانا ممکن نہیں ہوتا تاہم حزب اختلاف کی سرگرمیوں اور حکومتی و خاص طورپروزیر اعظم کی بھاگ دوڑسے اس امر کا اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی معاملات میں تیزی آگئی ہے ہونے کا وقت آگیا ہے۔ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک میں مہنگائی اور عوامی مسائل تقریباً لاینحل ہو چکے ہیںاس موقع پر جو بھی اقتدار کی سنگھاسن پر بیٹھے گا اسے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں بھرا تخت ملے گا۔اسی امر کے پیش نظر حزب اختلاف کی وہ جماعتیں جو قبل ازیں اقتدار کی قربانی دینے پر تیار نہیں تھیں اب وہ بھی اس امر پرآمادہ نظر آتی ہیں کہ ایک سیاسی عمل کے ذریعے حکومت کاخاتمہ کرنے کی سنجیدہ کوشش کی جائے اور اس کے بعد بجائے اس کے کہ مقررہ وقت پرعام انتخابات کا انعقاد ہو بلکہ مختصر مدت میں انتخابی اصلاحات کرکے الیکشن کرائے جائیںایسا کرنا شاید اس لئے بھی ضروری ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو اپنے داخلی مسائل پر قابوپانے اورآئندہ انتخابات کے لئے منظم ہونے کا وقت نہ ملے اس وقت اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے اور انتخابات قبل ازیں وقت پر نہیں بلکہ مقررہ وقت پرہوں تو اس دوران تحریک انصاف کو اتنا وقت ملے گا کہ عوام ان کی حکومت کی ناکامیوں کو بھلا دیں اور ان کی بیزاری ہمدردی میں تبدیل ہونے لگے جس کی حزب اختلاف کی کوئی بھی جماعت نہ تو خواہاں ہوگی او ر نہ ہی اس کی متحمل ہو سکتی ہے ۔بنا بریں نظر یہی آتا ہے کہ حزب اختلاف کامیابی کی صورت میںملک میںانتخابی عمل اور اس کی تیاریوں کی طرف جائے جہاں تک انتخابی اصلاحات کا سوال ہے اس کی ضرورت و اہمیت سے کسی کو انکار نہیںاگر دیکھا جائے تو ماضی کے برعکس اس وقت اس کے لئے مکمل طور پرفضا ہموار ہو چکی ہے اس ضمن میں جہاں ماضی کی حریف سیاسی جماعتیں متفق نظر آتی ہیں وہاں پر اثر انداز ہونے والی قوتیں بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ کوئی رخنہ ڈال سکیں یہ ایک اچھا موقع ہے اورسیاسی جماعتوںمیںاس کا ادراک و شعور پوری طرح اجاگر بھی نظر آتا ہے ایسے میںمتفقہ اصلاحات کے ذریعے الیکشن کمیشن اور انتخابی نظام کو اتنا مضبوط بنایا جائے کہ اس میں نہ تو دخل اندازی کی گنجائش باقی رہے اور نہ ہی نظام کی خامیاں ناکامی پر منتج ہوں۔

مزید پڑھیں:  مفاہمت کا سنہرا موقع