لہو میں ڈوبے پھولوں کے شہر پشاور کا نوحہ

پشاور کے کوچہ رسالدار میں واقعہ تین منزلہ جامع مسجد شہر قدیم گنجان آباد علاقے میں ہے۔ کالے کپڑے پہنے ایک دہشت گرد بڑے اطمینان سے چلتا مسجد کی طرف بڑھتا دیکھائی دیتا ہے پھر اچانک اس نے پسٹل نکالا اور مسجد کے باہر گلی میں2پولیس اہلکاروں کے مسجد کے اندر محافظ پر فائر کھول دیا۔ یہ تین افراد گولیاں لگن یسے گرے گلی میں بھگدڑ مچ گئی۔ یہاں ساعت بھر کیلئے رک کر یہ جان لیجئے کہ دہشت گرد ایک نہیں تھا ایک دہشت گرد کا تاثر مسجد کو جانے والے راستوں میں سے ایک سمت کی ویڈیو سے بنا جبکہ دہشت گردوں کی کل تعداد چار تھی خودکش بمبار کے علاوہ مسجد کے اندر دو دہشت گردوں نے فائرنگ کی اسی دوران بمبار نے خود کو اڑالیا جس کے بعد بھگدڑ کا فائدہ لے کر فائرنگ کرنے والے دودہشت گرد اپنے تیسرے ساتھی سمیت جو مسجد کے دروازے پر موجود تھا فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ، گزشتہ 20،22برسوں کے دوران خیبر پختونخوا اور بالخصوص پشاور، ڈیرہ اسماعیل خان، کوہاٹ، ہنگو، پارا چنار، سوات وغیرہ دہشت گردی سے متاثر ہونے والیان شہروں میں شامل ہیں جس کے اگر کسی گھر سے جنازہ نہیں اٹھا تو جنازے والے گھر سے اس کا کوئی نہ کوئی رشتہ و تعلق ضرور رہا۔ سیاسی طور پر دیکھیں تو بیس بائی سال سے جاری اس دہشت گردی میں اے این پی اور پیلپزپارٹی کے سینکڑوں کارکن اور رہنما اس دہشت گردی کا رزق بنے۔ اے این پی کے بشیر بلور اور ان کے صاحبزادے بھی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ جمعہ کے روز ہونے والا خودکش حملہ اس اعتبار سے قیامت خیز رہا کہ بڑے عرصہ بعد اتنی بڑی تعداد میں شہری دہشت گردی کی واردات میں جان سے گئے۔ اس خودکش حملہ میں شہید ہونے والے چند معصوم پھول(بچے)بھی شامل ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ان شہید بچوں کی تصاویر دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔دشمن کون وہی بھارت۔ معاف کیجئے ان میں سے بعض کہانیاں اور قصبے ہم پچھلے چالیس برسوں اور خصوصاً نائن الیون کے بعد سے سنتے چلے آرہے ہیں۔ جمعہ کے خودکش حملے کو دہشت گردی کی حالیہ لہر سے جوڑ کر دیکھنا ہے یا الگ کرکے یہ بنیادی سوال ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے درجنوں واقعات کی ذمہ داری اس تنظیم نے قبول کی جس سے ہمارے بڑے چند ہفتے پہلے مذاکرات کررہے تھے۔ مذاکرات ناکام ہوئے اور دہشت گردی شروع ہوگئی۔ کہا جارہاہے کہ مذکورہ تنظیم نے جن107سے زیادہ افراد کی رہائی کی شرط رکھ کر مذاکرات کے لئے آمادگی ظاہر کی تھی ان کی رہائی کا عمل ایک ماہ میں مکمل کرنے کا وعدہ ہوا تھا۔ رہائی اور وعدہ یہ کہانی کا ایک رخ ہے دوسرا رخ یہ ہے کہ بنیادی مطالبہ یہ تھا کہ ”ملکی آئین منسوخ کرکے فوراً نفاذ شریعت کا اعلان کیا جائے”۔ ایک دستور اور اس کی اساس پر استوار نظام پر چلتی مملکت کے لئے کیسے ممکن تھا کہ اس مطالبے کو تسلیم کرلے اسی لئے مذاکرات ختم ہوگئے۔
وزیرداخلہ ہمیں پچھلے دو برسوں سے یہ باور کرارہے تھے کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہوسکتے ہیں بعض مواقع پر انہوں نے اپوزیشن کے اجتماعات کے لئے دہشت گردی کے خطرے کی باتیں بھی کیں۔ ڈیڑھ مہینہ قبل صوبوں سے کہا گیا تھا کہ پبلک اور مذہبی و عباداتی مقامات کی فول پروف سکیورٹی کا پلان وضع کیا جائے۔ صوبوں نے اس پر کتنا عمل کیا اور کیا سکیورٹی پلان وضع کیا اس کی وضاحت یقینا متعلقہ حکام کو کرنی چاہیے۔ دہشت گردی کی حالیہ لہر کے ذمہ داروں کے تعین میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ افغان عبوری انتظامیہ کے چند ذمہ داروں کے بعض بیانات اور پاک افغان سرحد پر لگی باڑی کو کئی مقامات پر ہٹانے کے عمل میں ا فغانستان کی علاقائی انتظامیہ کے بڑوں کی موجودگی اور موقع پر ان کی تقاریر کے ساتھ اس رپورٹ کو جو دسمبر2021 میں شائع ہوئی، نظرانداز کرنا بہت مشکل ہے ، داعش نے جس بمبار کی تصویر جاری کی ہے وہ غیرمقامی ہے کیا دعوی اور تصویر حقیقت ہیں ؟ یہاں ایک بات سمجھ لیجئے وہ یہ کہ پچھلے تین برسوں کے دوران داعش نے افغانستان کی مقامی آبادیوں کے جس طبقے کو سب سے زیادہ نشانہ بنایاوہ ہزارہ قبیلہ ہے۔ پاکستان میں جمعہ کے روز کوچہ رسالدار پشاور کی مسجد امامیہ میں ہونے والا خودکش حملہ دہشت گردی کی حالیہ لہر کی اب تک کی سب سے بڑی کارروائی ہے۔ اس المناک سانحہ کے بعد ماضی کی روایتی کہانیوں، قصوں اور مذمتوں سے عوام کو بہلانے کی بجائے حقیقت پسندی سے کام لیاجانا چاہیے۔ اسی طرح حکمران انحاد کے حامیوں کا گزشتہ روز کے سانحہ کے حوالے سے حزب اختلاف کی تین جماعتوں پیپلزپارٹی، (ن)لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کو دوش دینا بھی قطعی طور پر غلط ہے۔ بالفرض اگر اسے درست مان لیا جائے تو پھر اس سوال کا جواب کون دے گا کہ ماضی میں موجودہ حکمران اتحاد کے قائد یہ کہا کرتے تھے کہ ہم جب بھی حکومت کے خلاف عوام کو منظم کرتے ہیں دہشت گردی کی کوئی واردات ہوجاتی ہے۔ عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ الزام تراشی سے نمک پاشی کی بجائے حکومت، ریاست اور محکموں کو اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دینا ہوگی اور حکمران اتحاد کے حامیوں کو بھی لفظوں سے آگ لگانے سے اجتناب برتنا ہوگا۔ یہ بات حیران کن ہے کہ آئی جی خیبر پختونخوا اور وفاقی وزیر داخلہ وغیرہ کہہ رہے ہیں کہ پیشگی اطلاعات نہیں تھیں۔ وزیراعظم کہہ رہے ہیں دہشت گرد کہاں سے آئے تمام معلومات موجود ہیں۔جان کی امان حاصل ہو تو عرض کروں معلومات سانحہ کے بعد الہام ہوئیں یا پہلے سے؟ پہلے سے تھیں تو دہشت گردی روکنے کے لئے اقدامات کیوں نہ ہوئے۔ یہ بھی عرض کردوں کہ کالعدم عسکریت پسند ہو یا فرقہ واریت پھیلانے پر کالعدم قرار دی گئی تنظیمیں، انہیں مرکزی دھارے میں لانے والی باتیں سرابوں کا تعاقب ہیں جو ذہن بن چکے وہ بن گئے۔ ہمیں پورے سماجی ڈھانچے تعلیمی نصابی اور دوسرے امور کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ جمعہ کے سانحہ پشاورمیں شہر کے دو بڑے خاندانوں شہید سید قمر عباس کے خاندان اور اخوندزادہ خاندان کا بھی بڑا نقصان ہوا۔ خون میں ڈوبے پھولوں کے شہر پشاور کے نوحوں سے ہر آنکھ پرنم ہے۔ اس وقت لوگوں کو قصوں کہانیوں، سازشی تھیوریوں سے بہلانے کی بجائے حقیقی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں:  جعلی لائسنس تحقیقات میں پیشرفت