سفید فاموں کی مقدس جنگ؟

برطانیہ کی سیکرٹری آف سٹیٹ لز ٹروس نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ برطانوی شہری اگر یوکرائن کی جنگ میں حصہ لینا چاہیں تو وہ اس کی حمایت کریں گی۔انہوں نے دوبار زور دے کر کہا میں حمایت کرتی ہوں ہاں میں حمایت کرتی ہوں۔لوگ اس معاملے میں خود فیصلہ کرسکتے ہیں۔یوکرائن کے عوام آزادی اور جمہوریت کے لئے لڑ رہے ہیںصرف یوکرائن کے لئے ہی نہیں وہ پورے یورپ کے لئے لڑ رہے ہیںاور صدر پیوٹن اس کو چیلنج کر بیٹھے ہیں ۔اگر لوگ اس جدوجہد کی حمایت کرنا چاہیں تو میں ان کی حمایت کروں گی”۔ماضی میں برطانیہ اور یورپ سمیت مغربی حکومتوں نے اپنے شہریوں کے عراق اور شام میں لڑنے کو ممنوع قرار دے چکی تھیں اور ایسا کرنے والوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا جاتا رہاہے۔برطانوی سیکرٹری آف سٹیٹ کے اس موقف نے مغرب کو بے نقاب کر دیا ہے ۔اس کے ساتھ ہی یوکرائنی صدر ولادیمر زلنسکی نے یوکرائن کو ویزہ فری کر دیا اور دنیا بھر سے روس کے خلاف لڑنے والوں کے لئے اپنی سرحدیں کھولنے کاا علان کیا۔یہ پالیسی روسی شہریوں کے لئے نہیں ہوگی جنہیں جارح ریاست کے شہری کہا گیا ہے۔اس سے ایک دن پہلے زلنسکی نے یوکرائن میں لڑنے کے خواہش مند مغربی باشندوں کے لئے بین الاقوامی لشکر بنانے کا اعلان کیا ۔کہا گیا کہ کوئی بھی شخص جو یورپ اور دنیا کے دفاع میں شامل ہونا چاہتا ہے روسی جنگی مجرموں کے خلاف یوکرائنیوں کے شانہ بشانہ لڑ سکتا ہے۔ایسے افراد سے درخواست کے ساتھ فوجی تجربے کی تفصیل بھی مانگی گئی ہے۔مغرب نے اپنے لوگوں کے لئے ترقی اور سماجی انصاف کا جو نظام قائم کیا بلاشبہ قابل تعریف ہے ۔مغرب نے سہولتوں کے اعتبار سے اپنے نظام کے ذریعے اپنے معاشرے کو جنت نما بنایا ہے بلکہ تیسری دنیا کے ملکوں کے اپنے حکمرانوں اور حکومتی سسٹم کے ستائے ہوئے لوگوں کے لئے مغربی معاشرے میں ایک کشش رہی ہے ۔جو لوگ ایسے ملکوں کے ناہموار سماجی ڈھانچوں کی وجہ سے ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہو سکتے مغرب میں انہیں ترقی کے بہتر مواقع میسر آتے ہیں۔اس لئے کہ وہاں ایک سماجی انصاف کا نظام قائم ہے ۔اندرونی طور پر اس قابل تعریف کردار کے باوجود مغربی غلبے کا حامل عالمی نظام ہمیشہ سے گہرے تضادات کا شکار رہا ہے ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کا طبل بجتے ہی یہ تضادات زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آئے ۔جب مسلمانوں کو پوری آبادی اور مذہب کو دہشت گردی کے ساتھ بریکٹ کر کے رکھ دیا ۔مغربی میڈیا کو اسلامک ٹیررازم کی اصطلاح کی جگالی کے کام پر لگا دیا گیا۔اب یوکرائنی محاذ کھل گیا تو یہ ماضی کی دودہائیوں کی جنگوں سے چنداں مختلف نہیں جو عراق ،افغانستان ،لیبیا اور شام میں لڑی گئیں۔فرق صرف یہ ہے کہ ان جنگوں میں آج کے روس کا کردار امریکہ نے ادا کیا اور آج کے یوکرائن کا کردار مسلمانوں کے حصے میں آیا ۔رجیم چینج ،جمہوریت ،آزادیوں ،پیشگی حملوں سمیت وہ سب اصطلاحات استعمال کی گئیں جو آج صدر پیوٹن استعمال کر رہے ہیں۔برطانوی سیکرٹری آف سٹیٹ کے الفاظ کا تجزیہ کریں تو انداز ہ ہوتا ہے کہ صدر پیوٹن نے حقیقت میں سفید فام بالادستی کو چیلنج کیا ۔اس کے تقدس اور طاقت کو للکارا ہے جبکہ یوکرائن کی حکومت اور زلنسکی یورپ کی بقا اور اقدا ر کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔اس طرح یوکرائن کی جنگ طویل ہوتی ہے تو مغرب اسے ایک گلوبل ہولی وار قرار دے کر دنیا بھر کے سفید فاموں کو اس میں شریک کرنے کا کھیل شروع ہو جائے گا ۔ اب تو کھل کر کہہ دیا گیا ہے کہ یوکرائن کے بعد یورپ اگلا نشانہ ہوگا یہ سفید فام نسل پرستانہ جذبات کو اُبھارا جا رہا ہے ۔ان جذبات کو بھڑکانے کے لئے صلیبی جنگوں کی طرز پر ہالی ووڈ سے کوئی چارلی ولسن گھوڑے پر سوار ہو کر سفید فاموں کا آئیڈیل بن کر سامنے آسکتا ہے۔ یوکرائن کے عوام جمہوریت اور آزادیوں کی جنگ لڑ رہے ہیں مگر عراق کے عوام کس اصول اور قانون کے تحت دہشت گرد تھے ۔آزادکشمیر سے مقبوضہ کشمیر جانے والے کس قانون کے تحت کراس بارڈر ٹیررازم کے مرتکب قرار پاتے ہیں بلکہ یہی نہیں کشمیر کے اندر مزاحمت کا حصہ اور فرزند زمین سیدصلاح الدین کس قانون کے تحت گلوبل ٹیررسٹ قرارپائے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یوکرائن کی جنگ نے مغرب کے تضادات کو نمایاں اور گہرا کیا ۔وہ جن اصطلاحات کو متروک اور ممنوع قرار دے چکے تھے اب پیوٹن نے انہیں دوبارہ ان اصطلاحات کو اپنانے پر مجبور کیا ہے۔ان کابس چلا تو یہ اسے سفید فام مقدس جنگ قرار دے کر دوبارہ ماضی کے افغان جہاد طرز کا ماحول بنائیں گے ۔فرق صرف یہ ہے کہ اس بار مسلمان اس آگ کا ایندھن نہیں ہو ں گے اس بار سفید فاموں کی اپنی” داعش” اور اپنی” القاعدہ” ہوگی عین ممکن اس سفید چمڑی والوں کی اس لشکر سازی سے اپنا ”بن لادن ” بھی اُبھر کر سامنے آئے ۔ اسے دنوں کا اُلٹ پھیر کہا جاتا ہے اوردنوں کا اُلٹ پھیر ہوتا بہت دلچسپ اور سبق آموز ہے۔

مزید پڑھیں:  بنا ہوا ہے مرا شہر قتل گاہ کوئی