دقدار پشاور

پشاور کی صورت حال اس وقت یہ ہے کہ اس کی گلیاں سونی دیو اریںچپ ہیں اور آسما ن ہے کہ ظلم وبربریت پر رو رہا ہے ۔اہل پشاور ہنو ز سانحہ اے پی ایس کے سانحہ کو نہیں بھول پایا کہ یہ دوسرا سانحہ رونما ہوا ، اس دہشت وبربریت کے بعد بھی وہ بولیا ں بولی جا رہی ہیں جو اے پی ایس کے سانحہ کے رونما ہو نے پر بولی گئی تھیں ۔وزیر اعظم عمر ان خان نے کہا ہے کہ پشاور دھما کے کی تحقیقات کی خود نگرانی کررہا ہوں ، ٹوئٹر پر پیغام میںمو صوف نے فرمایا ہے کہ اب ان پا س تما م معلوما ت ہیں دہشت گر د کہا ں سے آئے ، وہ پوری قوت کے ساتھ ان کا پیچھاکررہے ہیں ۔ بڑے تسلی دا ر الفا ظ ہیں کہ سانحہ رونما ہو نے کے ساتھ ہی حکو مت کو چند گھنٹے میں دہشت گر دو ں کا سراغ مل گیا ۔ یہ بھی معلو م ہو گیا کہ وہ کہا ں سے آئے تاہم شاید یہ معلو م نہ ہوسکا کہ کدھر کو گئے ۔ ۔لیکن جائزہ لیا جا ئے کہ جب شیخ رشید جیسے منجھے سیاست دان ہی ذمہ داریو ںکے سلسلے میں توجہ اس طرف رکھیں گے کہ عوام میں احساس ذمہ داری بڑھنے کی بجا ئے سیاست کی یہ اٹکھیلیاں ن میں سے شن اور ق ہو تا رہے تو امن وامان تو اس میں جھو نک جائے گا ۔کبھی سیکو رٹی ادارے محسن بیگ سے تو کبھی سابق ڈی آئی جی سے اٹکھیلیاں کر تے آئیں گے تو پھر صورت حال ایسی ہو جائے تو پھر کیا کہا جا سکتا ہے ۔پشاور کے تاریخی بازار قصہ خوانی کی بغل میں واقع کوچہ رسالدار کی ایک جا مع مسجد میں نما زیوںپر جو سانحہ بیت گیا ہے اس بارے میں تسلی کے علا وہ اور کیا دیا جاسکتا ہے ۔ قوم وزیراعظم کے اس جذبے کو قدر کی نگا ہ سے دیکھے گی کہ وہ بنفس نفیس خود اس واقعے کی تفتیش کی نگرانی کررہے ہیں ۔ وزیر اعظم کے اس اقدام سے یہ توقع تو کی جا سکتی ہے کہ نگرانی کی اس بلند سطح کی وجہ سے ادارے بھی کا م پوری سنجیدگی اورلگن سے کر کے انسان دشمنو ں کو کیفر کر دار پہنچانے کی ذمہ داری بھر پور انداز میں کر یں گے جو نقصان قیمتی انسانی جا نو ں کا ہوا ہے اس کا ازالہ تو ممکن نہیں ہے مگر آئندہ کے تحفظ کا متقاضی ضرور ہے ۔قصہ خوانی بازار کے جنو ب میں واقع کوچہ رسالدار بھی ایک تاریخی حثیت کا حامل ہے کا فی عرصہ قبل اسی علا قہ میں دہشت گردی کا ایک انتہائی گھناؤنا واقع رونما ہو چکا ہے جس میں انسانی جا نو ں کے ساتھ ساتھ بڑی تباہی و بربادی ہو ئی تھی اس زما نے میں پشاور دہشت گردی کا شکار تھا ۔یہ کوچہ پشاور کے قدیم ترین کوچو ں میں سے ہے اس کے نا م کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ملکہ نورجہا ں کے زما نے میں جو ایر انی نژاد فوج ہندوستان میںآباد ہوئی تھی اسے قزلباش کہا جاتا تھا فارسی میں قزلباش سرخ رنگ کی ٹوپی پہننے والو ں کو کہا جاتا ہے چنا نچہ جہا نگیر کی فوج میںرسالدار عہد ے پر فائز افراد نے پشاور میں اس علا قے میں رہائش اختیا ر کی تھی اسی بناء پر یہ کوچہ رسالدار کے نا م سے مو سوم ہوا۔ ظاہر ہے کہ قزلباش ایر انی نژاد تھے تواس کو چہ میں تعمیر ہو نے والی مسجد بھی اہل تشیع کے لیے ہے لیکن اس علا قہ میں ایک ہی مسجد نہیں ہے بلکہ قصہ خوانی سے جب اس کوچہ میں داخل ہو ں تو دائیں ہا تھ کو ایک اور چھو ٹی سی گلی آتی ہے اس میں سنی حضرات کی مسجد ہے گویا ان دونو ں مساجد کے وجو د سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ پشاور کا یہ قدیم ترین علا قہ مذہبی ہم آہنگی کا اعلیٰ درجے کا علاقہ ہے کیوں کے اس علا قے میںدونوں مسالک کے افراد ایک دوسرے سے شیر وشکر رہ کر میل میلاپ کر تے ہیں ۔ پشاو ر میں مسلکی بنیا د پر پہلے بھی کوئی دنگا فسا دنہیں ہوا کوئی ایک ادھ معمولی واقعہ ہو ا ہے تو وہ بھی سازش کی بنیاد پر ہو ا جب ایسے فساد کی لہر پورے ملک میں اٹھی ہوئی تھی لیکن پشاور میں کوئی قابل ذکر نہیں تھی کوچہ رسالدار میں داخلے کے دو بڑے راستے ہیں ایک قصہ خوانی بازار کی طرف سے تو دوسرا کوہاٹی کے علا قہ محلہ شاہ برہا ن کی طرف سے شروع کے دونوں راستے چوڑے ہیں ان میں سے مو ٹر کا گزر ممکن ہے جبکہ درمیان پتلی گلی پر مشتمل ہے اسی پتلے راستے پر مسجد واقع ہے ۔دہشت گردی کا جو واقعہ ہو ا ہے اس سے یہ اندازہ ہو تا ہے کہ بڑی سو چ سمجھ کر منصوبہ بندی کی گئی ہے دہشت گرد ایک راستے سے داخل ہوئے اور دوسرے راستے سے فرارہوگئے ۔پتلی گلی ہو نے کی وجہ سے امدادی کا رروائیو ں میں رکا وٹ بھی رہی جس کی وجہ سے امدادی کا رروائیو ں میں رخنہ پڑتا رہا ہے ۔یہ کوچہ رسالدار وہ ہے جہا ں بلبل سرحد مہ جبین قزلباش کا مسکن تھا جہا ں عالمی شہرت یا فتہ الغوزہ نو از منیر سرحدی جیسے لوگ بستے تھے یہ ہی نہیں بلکہ اس کو چہ میں فوج میں اعلٰی خدما ت انجا م دینے والے بھی رہتے تھے پروفیسر اور اعلیٰ تعلیم یا فتہ افراد کی بستی ہے ۔لیکن جب ادارے محسن بیگ اور سابق ڈی آئی جی پرویز ظہو ر کی طرف ہی توجہ مرکو ز رکھنے کی بجا ئے سیکورٹی امو ر کو ترجیح دیں گے تو امن واما ن کی صورت حال میں بہتری ہی بہتری ہی ہو گی ۔ سانحہ کوچہ رسالدار نے انسانیت کو خون کے آنسورلا دیا ہے ۔حیر ت کی بات یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے تو اس سانحہ پر رد عمل تو آیا قوم کو تسلی بھی دلا ئی گئی مگر اپو زیشن کی جا نب سے دو بول بھی سننے کو نہیں ملے ۔کیا سیا ست نے ان کی حس کو متا ثر کردیا ہے کہ اہل پشا ور پرقیا مت ٹوٹ گئی اور ان کو احسا س بھی نہیں ہو پایا ۔ یہ واقعہ سیا ست کر نے کا نہیں ہے ۔ یہ ضمیر کو جھنجھوڑرہا ہے کہ انسانیت جس شے کا نا م تھا وہ کہاںاٹھ گئی ۔

مزید پڑھیں:  ہسپتالوں کوشمسی توانائی پر منتقل کرنے کی ضرورت