پشاور ایک مرتبہ پھردہشت گردوں کے نشانے پر

مقتل سے آرہی ہے صدا اے امیر شہر
اظہارغم نہ کر میرے قاتل تلاش کر
پشاور پولیس کایہ دعویٰ باطل ہے کہ کوئی سکیورٹی خطرہ نہ تھا اور نہ ہی اس سے آگاہی دی گئی تھی حالانکہ ہفتہ قبل ہی حساس اداروں کی جانب سے اگست تک دہشت گردی واقعات کے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا جس سے پولیس کو بھی یقینا باخبر کیا گیا ہو گااس طرح کی ا طلاع کوئی پوشیدہ اطلاع نہیں ہوتی بلکہ مختلف ادارے اس طرح کی اطلاعات ایک دوسرے کوبتاتے ہیں بالفرض محال اگرایسا نہیں بھی تھا تو بھی یکے بعد دیگرے ہونے والے واقعات اور خطرات کیا اس امر کے لئے کافی نہیں تھے کہ پولیس حفاظتی اقدامات کومزید بہتر بناتی ۔ پولیس کی جانب سے بے خبری کا دعویٰ اس لئے بھی درست نہیں کہ گزشتہ دنوں انہی صفحات پر سکیورٹی کے بڑھتے خطرات کی نشاندہی اور اس سے نمٹنے کی تیاری کی ضرورت پرزور دیا گیا تھا ہم سمجھتے ہیں کہ عذر لنگ پیش کرنے کی بجائے اگرحالات و واقعات کے تناظر میںاقدامات نہ کرسکنے کا اور ارتکاب غفلت کا اعتراف کیا جائے یا کم از کم خاموشی اختیار کی جاتی تو زیادہ بہتر ہوتا ۔ امر واقع یہ ہے کہ اکثر و بیشترخطرے کی پیشگی اطلاع کے باوجود اس کی روک تھام ممکن نہیں ہوتی کوچہ رسالدار کی مسجد کے باہر حملہ آوروں کی آمد اور حملے کی فوٹیج دیکھنے سے سکیورٹی کا دہرا حصار نہ ہونا ہی ثابت نہیں بلکہ موقع پر موجود سکیورٹی عملہ بھی مناسب فاصلے پر نظر نہیں آیا اور نہ ہی حملہ آوروں کو روکنے کے لئے کسی محفوظ مچان میں کوئی سکیورٹی اہلکار موجود تھا محولہ مسجد میں معمول کے مطابق پولیس کے علاوہ رضا کاروں کی بھی ڈیوٹی لگتی رہی ہے بہرحال ان تمام حالات سے قطع نظرجس آسانی کے ساتھ حملہ آورمسجد میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے اور ان کو کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا بلکہ پورے اطمینان سے دہشت گردی کا موقع ملایہ سب سکیورٹی سے غفلت اور سکیورٹی کی صورتحال کی ناکامی کے باعث ممکن ہوا۔اگرچہ اس امر کی خبر دی گئی ہے کہ حملہ آور نے دو سے تین منٹ کی فائرنگ کے بعد دھماکہ کیا لیکن اس طرح کے واقعات میں اتنا وقت ملنا تقریباً ناممکن اس لئے ہوتا ہے کہ ہجوم میں اتنی آزادی سے محض پستول سے فائرنگ پرمزاحمت نہ ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتاہمارے تئیں حملہ آورگھسنے میں کامیابی کے چند لمحے بعد ہی خود کش دھماکہ کر دیا ہو گابہرحال اس حوالے سے سکیورٹی اہلکارتفتیش اور تحقیقات کے بعد ہی درست صورتحال جان سکتے ہیںاگرچہ عینی شاہدین کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایس لگ رہا تھا کہ گویا حملہ آور کو معلوم تھا کہ کون کہاں ہے اس سے بھی اتفاق نہیں کیا جا سکتا لیکن اگر واقعی صورتحال ایسی ہی تھی اور حملہ آور کو اپنے اہداف کا علم تھا تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عین موقع پر ان کو اس طرح کی معلومات کیسے ملیں کیا کوئی نمازی کے بھیس میں دہشت گرد پہلے ہی مسجد میںموجود تھا اور ان کا ممکنہ طور پر باہر سے رابطہ تھابہرحال یہ بھی ایک خدشہ اور امکان ہی ہے جو تحقیق طلب امر ہے ۔ ان تمام نکات سے قطع نظر افسوسناک امر یہ ہے کہ ایک عرصے بعد خیبر پختونخوا کے دارالخلافہ پشاور میں مسجد پر خود کش حملہ کیا گیا جو ایک بڑا سانحہ ہے اور جن لوگوں کے حافظے میں پشاور میںخود کش دھماکوں اور حملوں کی یادیںمحفوظ تھیں ان کے لئے تو خاص طور پر یہ واقعہ لرزا دینے والا اور عدم تحفظ کے احساس کا باعث ہے اگر دیکھا جائے تو اس طرح کی صورتحال اچانک پیش نہیں آئی بلکہ قبل ازیں شہر میں دینی رہنمائوں کے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات بڑھ گئے تھے نیز پولیس اہلکاروں کو بھی تاک کر نشانہ بنانے کا عمل جاری تھا صرف پشاور ہی میں نہیں بلکہ صوبہ بھر میں اس طرح کی صورتحال خطرے کی گھنٹی بجا رہی تھی۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ اس طرح کے واقعے کے رونما ہونے کے بعد مختصر مدت کے اندر بلکہ چند گھنٹوں میں ہی سی سی ٹی وی فوٹیج کی گواہی ملتی ہے کہ حملہ آور کون تھے اور کس راستے سے آئے اور ان کا حلیہ کیا تھا کس قسم کے اسلحے سے لیس تھے اور انہوں نے یہ سانحہ برپا کیسے کیا یہ سب کچھ سانپ کے گزرنے کے بعد لکیر پیٹنے کے مترادف ہے جس کا کوئی فائدہ نہیں اس لئے کہ ملزمان خود بھی باقی نہیں رہتے کہ ان سے تفتیش کرکے نیٹ ورک کا پتہ چلایا جا سکے بہرحال پولیس اور حساس ادارے دستیاب شواہد ہی کی بنیاد پر نیٹ ورک تک پہنچنے کی کوشش کر سکتے ہیںپشاورمسجد پر خود کش حملے کے واقعے کی ذمہ داری داعش خراسان نے قبول کرلی ہے یہ ایک اور سوال کا باعث ہے جو پاکستان اور خصوصاً خیبر پختونخوا میں داعش کے نہ صرف سرگرم عمل ہونے کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ اس کے فعال نیٹ ورک اور حملے کی منصوبہ بندی اور اس پر کامیابی سے عمل درآمد کا بھی اظہار ہوتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ جو دعویٰ کیا گیا ہے اس پر یقین بھی کیا جائے اس لئے کہ عالمی حالات سے لیکر عالمی کرکٹ تک اور ہمسایوں کے ساتھ سرحدی تنازعات اور جھڑپیں سبھی عوامل کو مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اسی کے مطابق سکیورٹی کے انتظامات اور پالیسیاں مرتب کرنا بہتر ہو گا۔اس امر کے اعادے کی ضرورت نہیں کہ اچھی منصوبہ بندی اور بہترین انٹیلی جنس وہی ہوتی ہے جو خطرے کو قبل از وقت بھانپ لے اور اس کے تدارک و مقابلہ بلکہ ممکنہ خطرے کو اٹھتے ہی ختم کر پائے ۔ اب جبکہ خطرہ بدترین صورت میں سامنے آچکا تو ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے ایک مرتبہ پھر وہی اقدامات بروئے کار لائے جائیں جس قسم کے اقدامات دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کے دوران اختیار کئے گئے تھے۔پشاور میں مسجدکے اندر خود کش حملہ بہت بڑی سازش کی کڑی ہے اس طرح کی سازشوں کا پہلے بھی مقابلہ کیا گیا ہے اور آئندہ بھی ایسے ہی عزم و حوصلہ سے اس طرح کے واقعات کا حکومتی اور عوامی دونوں سطحوں پرمقابلہ کیا جائے گاجس کے لئے ہر سطح پر ایک مرتبہ پھر تیار رہنے کی ضرورت ہے ۔

مزید پڑھیں:  مفاہمت کا سنہرا موقع