مشرقیات

ملکی وقار کی فکر چھوڑھ کر سب کو فی الحال ملکی مفاد کا غم کھانے لگا ہے ،چڑھتے سورج کے بچاری کسی نے دیکھنے ہوں تو پاکستان کی سیاست پر ایک نظر ڈال لے ،کوئی اصل اصول ہوتا تو کل کے ان دشمنوں کو آج کوئی گلے لگانے کی حماقت نہ کرتا۔ تاہم سیاست میں اس قسم کی حماقتوں کو ہی دو جمع دو کرکے حکومت بنائی جاتی ہے ،اس لیے کپتان کے بعد ان کے حریفوں نے بھی نئی حماقتوں کی باب لکھنے کی ٹھان لی ہے تو ان کی مرضی۔وہی چہرے ہوں گے اور وہی مسائل۔اہلیت ان میں ہوتی تو کب کے یہ مسائل حل ہو چکے ہوتے ،تاہم ستر سال سے زیادہ عرصہ ضائع کرنے کے بعد بھی ہماری سیاست کا رنگ روپ گواہی دے رہا ہے کہ ہم مزید ستر اسی برس اسی راہ پر چلنے کا ارادہ باندھ چکے ہیں۔یا ر لوگوں کے بقول ہم اندرونی سازشوں کے ساتھ ساتھ بیرونی سازشوں کا شکار بھی ہوتے رہے ہیں اور یہ کہ دنیا کسی صورت ہمیں ترقی کرتے نہیں دیکھ سکتی۔ادھر ہمیں سمجھ نہیں آرہی کہ گھر کے بھیدی جب لنکا ڈھانے کو تیار بیٹھے ہوں تو ہمارے دشمنوں کو کاہے کی فکر ،تو جناب ایک بار پھر سیاسی اتھل پتھل کر کے ہم نے اپنا تماشا لگایا ہوا ہے۔سرکار تو اول دن سے نہیں سمجھ رہی کہ اس نے کرنا کیا ہے اور کیسے کرے گی ،تاہم اپنی سرکار کے منتظر بھی نہیں جانتے کہ انہوں نے ان چلے ہوئے کارتوسوں کے ساتھ کون سا کارنامہ سرانجام دینا ہے جو ہر حکومت کا یوں حصہ بن جاتے ہیں اور وقت آنے پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ فائر ہی نہیں کئے جاسکتے۔انہیں وزارتوں مراعاتوں کی پڑی ہوئی ہے اور قوم کی جان پر بنی ہوئی ہے۔جو بھی ملکی مفاد سے اپنے سیاسی فیصلوں کو جوڑ رہا ہے اول درجے کا جھوٹ بول رہا ہے، سیاست میں ملکی مفاد نہیں ہمیشہ اپنا مفاد ترجیح رہا ہے، اسی وجہ سے یہ ملک اپنے قیام کے بعد آج تک ترقی نہیں کرسکا، ہم سے تو اڑوس پڑوس کے ممالک اچھے جو سیاسی لڑائی میں ہم سے بھی دو قدم آگے ہوتے ہوئے بھی ملکی مفاد میں چار قدم بہتری لا چکے ہیں، کچھ ان ہی سے سبق سیکھ لیں۔تحریک عدم اعتماد کے بعد تبدیلی آئے نہ آئے ،دونوں صورتوں میں ملک کو سیاسی عدم استحکام کی راہ پر نہیں ڈالنا چاہیے، اپوزیشن کامیاب ہو جائے توکپتان اور اس کے کھلاڑی اپوزیشن کی نشستیں سنبھال کر حکومت کے اچھے برے کاموں پر نظرر کھیں اور اگر تحریک ناکام ہوجائے تو مولانا اور شہباز میاں سے عرض ہے کہ بجائے سڑکوں پر دمادم مست قلندر کے نعروں کے آنے والے انتخابات کی تیاری کریں۔یہ ملک سلامت رہے تو سب کی سیاست بھی ہوتی رہے گی، ایک دوسرے سے نفرت کی بنیاد پر سیاست البتہ سب کے لیے زہر قاتل ثابت ہو گی ،اس سے گریز ہی کریں تو بہتر ہے۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے نئے منصوبے اور آئی ایم ایف کا دباؤ