زرعی زمینوں پر رہائشی سکیموں کا معاملہ

پشاور ہائی کورٹ کا چارسدہ میں زرعی زمینوں پر رہائشی سکیموں کے خلاف دائر رٹ پر ڈپٹی کمشنر سے رپورٹ طلب کرنا احسن امر ہے، کیونکہ زرعی زمینوں پر رہائشی سکیموں کے پھیلائو سے زرعی زمینیں کم ہوتی جا رہی ہیں، اس کا نتیجہ اجناس کی کم پیداوار اور ماحولیات پر منفی اثرات کی صورت سامنا آ رہا ہے۔ قانون کے مطابق زرعی زمین کو زراعت کے علاوہ کمرشل یا دیگر سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا، مگر قانون کو بالائے طاق رکھ کر قیمتی زرعی زمینوں پر دھڑا دھڑ رہائشی کالونیاں بنائی جا رہی ہیں۔ زرعی زمینوں پر دھڑا دھڑا رہائشی کالونیاں بنائی جا رہی ہیں ۔ زرعی زمینوں کا رہائشی مقصد کے لیے استعمال سرکاری اداروں کی ملی بھگت کے بغیر ممکن نہیں ہے، کالونی کا این او سی سے لے کر بجلی و گیس کے کنکشن تک سرکاری اداروں کے تعاون سے ہوتا ہے، ایسی صورت حال میں قانون پر عمل درآمد کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
یہ درست ہے کہ بڑی تعداد میں شہری رہائش کے مسائل سے دوچار ہیں ، انہیں رہائش کی ضرورت ہے ، رہائش کی کمی کو پورا کرنے کے لیے سرکاری اور نجی سطح پر کام ہو رہا ہے لیکن زرعی زمینوں کو رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کسی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی ہے کیونکہ زرعی زمینوں سے غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں، اگر چند ٹکوں کے لالچ میں آ کر زرعی زمینوں کو فروخت کر کے ان پر رہائشی کالونیاں بنا لی جائیں تو غذائی ضروریات کو کہاں سے پورا کیا جائے گا۔ ایسی صورت حال کا تقاضا ہے کہ گھروں کی کمی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ملٹی پل سٹوری کو رواج دیا جائے یا پھر ایسی زمینیں رہائشی مقاصد کے لیے استعمال کی جائیں جو بنجر ہیں۔ نئے شہروں کی آباد کاری سے بھی گھروں کی کمی کا مسئلہ حل کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح سرکاری اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہائوسنگ سوسائٹیوں کو این او سی جاری کرنے سے پہلے تمام قانونی تقاضے پورے کر لیں ، اب معاملہ چونکہ عدالت میں ہے تو امید کی جانی چاہیے کہ عدالت عالیہ نہ صرف زرعی زمینوں کو محفوظ بنانے کے لیے اقدام اٹھائے گی بلکہ اس سلسلے میں غفلت کا ارتکاب کرنے والے اداروں کے خلاف بھی کارروائی کرے گی۔
جنگلی حیات کے تحفظ کیلئے صوبائی حکومت کا اقدام
خیبرپختونخواحکومت نے جنگلی حیات کے تحفظ کے لئے محفوظ شدہ علاقوں کا رقبہ صوبے کے مجموعی رقبے کے 15 فیصد کے برابر کرنے کا ہدف حاصل کر لیا ہے جو صوبائی حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے، یہ پیشرفت جنگلی حیات کے ساتھ ساتھ ماحول کے تحفظ کے حوالے سے بھی اہمیت کی حامل ہے، ماحول کو بچانے کے لئے خیبرپختونخوا حکومت کی سنجیدگی اور عزم کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ صوبائی حکومت شجرکاری مہم میں بھی دیگر صوبوں سے آگے ہے۔
حالیہ پیشرفت کے تحت صوبائی حکومت کی طرف سے صوبے کے مختلف اضلاع میں 9 نیشنل پارکس، 87 کمیونٹی گیم ریزروز، 38 پبلگ گیم ریزرو اور 5کنزروینسیز سمیت دیگر پروٹیکٹڈ ایریاز قائم کئے گئے ہیں جن کا کل رقبہ 15لاکھ 64ہزار ہیکٹر سے زائد بنتا ہے، حکومت کا یہ اقدام یقیناً ان قیمتی نسل کے جانوروں اور پرندوں کی افزائش نسل میں معاون ثابت ہوگا جو معدومیت کے خطرے سے دوچار تھے۔ صرف یہی نہیں خیبر پختونخوا حکومت صوبے میں مزید موزوں مقامات کو بھی پروٹیکٹڈ ایریاز کا درجہ دینے کا ارادہ رکھتی ہے جن میں راخ ٹوپی نیشنل پاک، گوسڑھ نیشنل پارکس، بشقارگول بائیو سفیئرریزرو اور کوہ سلیمان کنزروینسی شامل ہیں۔
صوبائی حکومت کے یہ اقدامات صوبے میں سیاحت کے فروغ کے حوالے سے بھی اہمیت کے حامل ہیں، یقیناً جب سیاحت کو فروغ ملے گا تو اس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے اور صوبے کی آمدن بھی بڑھے گی چنانچہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے جنگلی حیات اور ماحول کے تحفظ کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے معیشت اور لوگوں کی زندگیوں پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے، گوکہ حکومت کی طرف سے ماحولیات کو بچانے کی ذمہ داری پوری کی جا رہی ہے لیکن اس ضمن میں عوام کا بھی حکومت کے ساتھ تعاون اہم ہے کیونکہ حکومت کی حاصل کردہ کوئی بھی کامیابی اسی صورت پائیدار کہلائے گی جب اسے عوام کی تائید اور تعاون بھی حاصل ہو۔
بنوں میں پشتون قومی جرگے کا انعقاد
بنوںمیں پشتون قومی جرگے کا انعقاد عمل میںلایا گیا ہے، جس میں پشتونوں کو درپیش مسائل، عدم مساوات، دہشتگردی اور نقل مکانی جیسے مسائل پر غور کیا گیا۔ جرگہ ترجمان سابق سینیٹر رضا محمد خان نے اس موقع پر کہا کہ پشتونوں کے قدرتی وسائل پر سب سے پہلا حق پشتونوں کا ہے۔ افغانستان اور پاکستان میں بدامنی کا اثر سرحد کے دونوں طرف پشتونوں پر پڑتا ہے۔ پختونخوا نیشنل عوامی پارٹی (پی این اے) کے سیکرٹری انفارمیشن خوشحال خان کاکڑ نے کہا کہ جرگہ پشتون مسائل حل کرنے کے لیے کام کرے گا۔ اس قومی جرگے کا مقصد پشتون علاقوں میں جاری جنگ کو ختم کرنا ہے۔ قومی جرگے کی خصوصیت یہ ہے کہ خواتین کی بڑی تعداد نے اس میں شرکت کی، جنہوں نے خواتین کی تعلیم، جائیداد میں حصہ ، مکمل حقوق دینے کی تجاویز دیں۔
جرگہ پشتون سماج کی پہچان ہے ، صدیوں پہلے مسائل کو جرگہ کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بنوں میں منعقد ہونے والا جرگہ اس لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں منتخب نمائندے مقامی مسائل کو مقامی سطح پر حل کرنے کیلئے زور دے رہیں تو اقتدار کے سبھی شراکت داروں کو اس کی تحسین کرنی چاہیے۔
پشتون علاقوں میں موجود قدرتی وسائل ، پانی ، گیس اور بجلی کے رائلٹی حقوق پر پشتون تحفظات کا اظہار کرتے آئے ہیں ، مگر وفاقی سطح پر ان مسائل کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی، المیہ تو یہ ہے کہ پشتون قومی جرگہ میں شامل رہنمائوں کو متعدد بار صوبائی و قومی اسمبلی اور ایوان بالا کا حصہ بننے کا اتفاق ہوا مگر تب بھی مسائل حل نہ ہو سکے۔ سو جرگہ کی اہمیت اپنی جگہ مگر جب پشتون رہنمائوں کو آئین ساز اداروں کا حصہ بننے کا اتفاق ہو تو وہاں پر قانون سازی کے لیے بل پیش کریں تاکہ دیرینہ مسائل کا مستقل حل ممکن ہو سکے۔

مزید پڑھیں:  آتشزدگی سے متاثرہ علاقے میں تجاوزات