تصادم سے گریز کی ضرورت

وزیر اعظم عمران خان کو اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کا سامنا ہے، اپوزیشن جماعتوں نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کے کاغذات جمع کرا دیئے ہیں۔ اب سپیکر قومی اسمبلی پر منحصر ہے کہ وہ کب اجلاس بلاتے ہیں اور کب رائے شماری ہوتی ہے، قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ اس ضمن میں حکومت زیادہ سے زیادہ 29مارچ تک تاخیر کر سکتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد کے کاغذات جمع ہونے کے بعد حکومت و اپوزیشن آمنے سامنے آ گئے ہیں اور ہر جانب سے تلخی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ حکومتی سطح پر تلخی زیادہ ہے حالانکہ اپوزیشن جماعتوں نے آئینی راستہ اختیار کیا ہے کیونکہ آئین کا آرٹیکل 95تحریک عدم اعتماد کی اجازت دیتا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو اپوزیشن جماعتوں نے غیر آئینی یا غیر جمہوری راستہ نہیں اپنایا ہے، ایسی صورتحال کا تقاضا ہے کہ حکومت بھی ایسا راستہ اختیار کرنے سے گریز کرے جو ملک میں سیاسی عدم استحکام یا تصادم کے زمرے میں آتا ہو۔ حکومت کو چاہیے کہ اپنے اراکین اور اتحادیوں کے تعاون سے اپوزیشن جماعتوںکو ایوان کے اندر شکست دینے کی منصوبہ بندی کرے، کیونکہ حکومت کے پاس اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کا ایک یہی آئینی راستہ ہے، مگر حکومت ایوان میں مقابلہ کرنے کی بجائے ایسا راستہ اختیار کر رہی ہے جس سے تصادم اور سیاسی عدم استحکام کے امکانات بڑھ جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان نے پارٹی رہنمائوں کو ٹاسک دیا ہے کہ ڈی چوک میں بڑا جلسہ کرنے کے لیے وہ کوشش کریں۔ تحریک عدم اعتماد سے ایک روز قبل اسلام آباد میں پاور شو کا عندیہ دیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی قائدین کو 10لاکھ کارکن جلسے میںلانے کا ہدف دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم عمران سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ڈک چوک میں 10لاکھ کارکنان جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد دم توڑ جائے گی ۔
دیکھا جائے تو وزیر اعظم عمران خان اور حکومتی وزراء الگ الگ کشتیوں کے سوار ہیں، وزیر اعظم عمران خان اب بھی جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں جبکہ حکومتی وزراء مزاحمت کے بعد مفاہمانہ رویہ اپنا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ تلخیاں نہ بڑھائی جائیں ، انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کا عندیہ بھی دیا، اسی طرح وفاقی وزیرداخلہ شیخ رشید احمد نے بھی اپوزیشن کے ساتھ صلح پر زور دیا کہ ایک سال باقی ہے حکومت کو اس کی آئینی مدت پوری کرنے دی جائے۔ وفاقی حکومت کے بیانات سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کی تحریک عدم اعتماد سے کسی قدر خوف زدہ ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد کی بجائے افہام و تفہیم کا راستہ اختیار کر لیں۔ اقتدار کو بچانے کے لیے بعض وزراء لچک کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب اپوزیشن جماعتیں حکومت پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور معاملات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں جس سے واپسی ممکن نہیں۔
تحریک انصاف کے لیے سوچنے کا مقام ہونا چاہیے کہ جب حکومت پر کڑا وقت آیا تو اس کے پاس کوئی رہنما ایسا نہیں کہ جو اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ افہام و تفہیم کے لیے بات کر سکے۔ جو وزراء اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد سے پیچھے ہٹنے کیلئے پریس کانفرنس یا ٹوئیٹر کا سہارا لے رہے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ تلخی کو کم کرنے کیلئے لچک کا مظاہرہ کریں، اس حوالے سے حکومت کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، حکومت مزاحمتی رویہ اپنانے کی بجائے مفاہمانہ رویہ اختیار کرے، مخالفین کے ساتھ بات چیت کیلئے ہر وقت دروازے کھلے رکھے ۔ نامساعد حالات میں ایسے اراکین کو سامنے لایا جائے جن پر کسی کو اعتراض نہ ہو، لیکن تحریک انصاف بیک وقت دو مؤقف اختیار کئے ہوئے ہے، حکومت چاہتی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد واپس لے لیں لیکن وہ اس مقصد کیلئے اپوزیشن سے بات کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، اسی طرح حکومت نے پہلے مرحلے میں مزاحمتی رویہ اپنایا اور جب معاملات سنگین صورتحال اختیار کر گئے تو مفاہمتی عمل شروع کیا گیا، دیکھا جائے تو جو وزراء مفاہمت کی بات کر رہے ہیں ان کے لہجے میں اب بھی تلخی قائم ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پراپوزیشن جماعتیں حکومت کے ساتھ مل بیٹھنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ تلخیوں کو بڑھنے دیا جائے بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے تلخیوں کو کم کرنے کی اپنے تئیں کوشش کی جائے تاکہ سیاسی عدم استحکام کی صورت میں پیدا ہونے والے نقصان کو کم کیا جا سکے۔

مزید پڑھیں:  عوام کْش''تاریخ ساز''وفاقی بجٹ