سودا خدا کے واسطے کر قصہ مختصر

چند دن پہلے سائنس و ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک سیمینار میں شریک ہوا۔بیرونِ مُلک کسی یونیورسٹی سے ایک فارغ التحصیل نے اپنے لیکچر کو اتنا طول دیا کہ کئی لوگ اونگھنے لگے اورکچھ ہال سے باہر جاکر گپ شپ اُڑانے لگے۔ یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ایک بات کو مختلف زاویوں سے دہراتے ہیں یا غیر ضروری تمہید سے وقت ضائع کرتے ہیں بلکہ سننے والوں کو اذیت دینے لگتے ہیں۔ہمارے ایک بزرگ جب محفل میں کسی بھی موضوع پہ بات کرتے تو ہمیشہ اپنی گفتگو کا آغاز جنگِ عظیم دوم کے واقعات سے کرتے۔ اسی طرح ایک افسر کو اپنے منہ میاں مٹھو بننے کا اس قدر چسکا پڑ چکا تھا کہ دفتری میٹنگ میں وہ اپنی اتنی تعریفیں کرنے لگتے کہ کسی کو ایجنڈا پہ بات کرنے کا موقع ہی نہ ملتا ۔ آج کل یہ عادت اس قدر عام ہو چکی ہے کہ ٹیلی ویژن کے کسی ٹاک شوکا میزبان ہو یا کسی موضوع پہ تقریب کا سٹیج سیکرٹری ہو ، وہ نہ صرف زیادہ وقت خود ہی بولتا رہتا ہے بلکہ بعض اوقات ایسے غیر مناسب اور بے مقصد الفاظ بھی ادا کرتا ہے کہ تقریر کرنے اور سننے والے پریشان ہو جاتے ہیں۔ اب کسی کے لیے یہ کہنا کہ ”فلاں صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ان کی گوناگوں مصروفیات بیان کرنے کو میرے پاس الفاظ نہیںیا فلاں بات بیان سے باہر ہیں ۔” بڑے ہی نامناسب معلوم ہوتے ہیں کیونکہ اس سے کم الفاظ میں شخصیت کا تعارف کروایا جا سکتا ہے۔ مولانا محمد علی جوہر کہا کرتے تھے کہ مختصر بات کہنا اور لکھنا کوئی آسان کام نہیں ۔اس کے لیے وقت اور محنت کی ضرورت ہے۔یہ تجربہ ہوا ہے کہ مختصر اور لطیف بات فوراً دل میں اُتر جاتی ہے۔ معروف مرثیہ نگار میر انیس نے ایک طویل مرثیہ لکھا جس کا ایک مصرعہ تھا ” آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے ”۔نواب شیفتہ نے جو خود بھی اردو اور فارسی کے باکمال شاعر تھے، اُنہوں نے انیس کے ا س مرثیہ کا جائزہ لے کر کہا کہ اس مصرعہ سے سارے مرثیہ کا خلاصہ سمجھ میں آجاتا ہے اور امام حسین کی کربلا میں ابتلا کا منظر واضح ہو جاتا ہے۔ گویا بے ساختہ لطف دینے کے لیے بات کا مختصر ہونا لازمی ہے۔ ہاں اگر مضمون کے مختلف اجزا کو تسلی بخش طور پہ بیان کرنے کے لیے تحریر و تقریر قدرے بڑھ جائے تب کوئی ہرج نہیں بشرطیکہ بیان میں ربط اور حسن کو جاری رکھتے ہوئے سامع یا قاری کی دلچسپی برقرار رکھی جائے۔ اس پہلو پہ ہمارے بہت سے مصنفین اور مقررین کم توجہ دیتے ہیں جس کے باعث پڑھنے اور سننے والے بڑی مشکل میں پڑ جاتے ہیں۔ مشہور انگریزی ناول نویس اور تنقید نگار خاتون ورجینا وولف نے ناول نگار ڈبلیو ایل جارج جو بیزار کرنے والی طول بیانی کے لیے بدنام تھے، کے بارے لکھا تھا کہ ہم نہایت نیک نیتی سے یہ خواہش کرتے ہیں کہ جارج کے دائیں ہاتھ کو چوٹ لگ جائے یا انگلیوں میں درد ہو جائے تا کہ وہ بات کو مختصر لکھنے پر مجبور ہو۔ وہ باتوں کو بار بار دہراتا ہے اور کاغذ ضائع کرتا ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے ایک ممتاز رکن ایڈمنڈ برک ایسی ہی اکتا دینے والی لمبی لمبی تقریر کے لیے بدنام تھے کہ جونہی وہ تقریر کرنے لگتے،دوسرے اراکین کیفے ٹیریا کا رخ کرتے۔ اسی لیے ان کا عرف ”ڈنر بیل” یعنی کھانے کی گھنٹی رکھ دیا گیا تھا۔
ہماری تہذیب و ثقافت میں یہ عادت ضرور ہے کہ شاعر و ادیب یا کسی بھی مقرر کی کوئی بات ،فقرہ، شعر پسند آجائے تو مکر ر مکرر کہہ کر اسے بار بار دہرانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ یہ مشاعرہ کے آداب میں شامل ہے کہ کسی مصرعہ کی پسندیدگی پہ مقرر کہہ کر دوبارہ سنا جاتا ہے ورنہ پسند نہ آنے پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔ اس ضمن میں ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ ایک فوجی افسر کسی مشاعرہ میں مہمانِ خصوصی تھے مگر مشاعرے کے ان آداب سے ناواقف تھے۔ جب حاضرین نے ہر شاعر کے اچھے شعر پر مقرر مقرر کہنا شروع کیا تو وہ تنگ آگئے۔ آخر اپنی نشست سے اُٹھے اور حاضرین کو بڑے تحکم سے کہا کہ ہر شعر کو غور سے سنو ، یہ شاعر حضرات تمہارے باپ کے نوکر نہیںجو تمہارے کہنے پہ شعر دہراتے رہیں ۔ ایک اچھی اور مختصر سی بات میں پورا موقف بیان ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہمیں ہمیشہ اختصار سے کام لینا چاہیے۔ فارسی کے شاعر عطاء اللہ خان عطا کا یہ شعر بڑا با معنی اور مدلل ہے۔
چیزے کہ گوئی نغز بگو،مختصر بگو
یک شعر ارجمند بہ دیواں برابر است
( یعنی جو بات بھی کہیں وہ اچھی اور مختصر ہو کیونکہ ایک خوبصورت شعر پورے دیوان کے برابر ہوتاہے)۔ قارئین کرام ! اگر کسی کو ایسی ہی طویل باتیں کرنے کی عادت ہو اور اُنہیں اختصار سے بات کرنے میں مشکل پیش آئے تو پھر مُلا نصیر الدین (جس کا اصل نام خواجہ نصر الدین تھا) کا نسخہ آزمانہ پڑے گا۔ مُلا ایک بار وعظ کرنے کھڑے ہوئے۔مجمع سے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ مَیں نے کس موضوع پہ تقریر کرنی ہے ؟ کچھ نے کہا ہاں اور دوسروں نے ناں میں جواب دیا۔ تب مُلا نصیر الدین نے فرمایا کہ ” جو جانتے ہیں وہ دوسروں کو بتا دیں، والسلام علیکم !!”۔

مزید پڑھیں:  جینا محال ہے