گیس تو گیس ہے ‘ بجلی کو نہ پوچھا جائے

یک نہ شد دو شد ‘ابھی عوام گیس کی شدید قلت کا رونا رو رہے تھے ‘ خصوصاً جب سوئی گیس حکام نے لگ بھگ دو ڈھائی ماہ پہلے وزیر اعلیٰ محمود خان کے ساتھ عوامی شکایت کے حوالے سے یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ صرف تین دن میں بڑے قطر کے پائپ بچھا کر گیس کی قلت دور کر دی جائے گی ‘ جس پر راقم نے نہ صرف اس وقت بلکہ بعد میں بھی متعدد کالم لکھ کر اس”دعوے یا وعدے ” کی حقیقت کھول دی تھی اور اسے عوام کو لالی پاپ سے تعبیر کرتے ہوئے گزارش کی تھی کہ ”ان تلوں میں تیل نہیں ہے ” ،اس کے بعد کوئی بہت ہی ”خوش فہم” ہوگا جو ان کے وعدوں پر یقین کرے ‘اور تب سے تادم تحریر خیبر پختونخوا کے عوام کو جس طرح اپنی ہی گیس سے محروم رکھا جارہا ہے اس کے ثبوت کے طور پر اخبارات کے صفحات گواہی کیلئے موجود ہیں جن میں گیس کی شدید قلت کے حوالے سے عوام کے مختلف علاقوں میں احتجاج کی خبریں”تھوک کے حساب سے” شائع ہوتی رہتی ہیں۔ بقول شاکر شجاع آباد
اساں اجڑے لوک مقدراں دے
ویران نصیب داحال نہ پچھ
توں شاکرآپ سیانا ایں
ساڈے چہرے پڑھ حالات نہ پچھ
گیس کا رونا ابھی ختم نہیں ہوا اگرچہ موسم نے انگڑائیاں ضرور لے لی ہیں اور سردی میں بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے ، لیکن شدید سردی میں گیس کے ہیٹر جلا کر خود کو سردی سے بچانا یا پھر گیزرکے ذریعے پانی گرم کرنا تو بہت دور کی بات رہی ہے ‘ یہاں تو معاملہ ناشتہ سے لیکر رات کے کھانے پکانے تک بھی گیس کی کمی کا رہا ہے اور لوگ دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو ‘ والی صورتحال سے دو چار رہ کرلکڑیوں ‘ کوئلے اور مٹی کے تیل کے چولہوں والے دور میں پہنچ گئے تھے بلکہ اب بھی بہت حد تک انہی حالات کا شکار ہیں ‘ اب جبکہ سردی ابھی مکمل ختم نہیں ہوئی اور گرمی بھی پوری طرح جوبن میں آئی نہیں کہ اخباری اطلاعات کے مطابق بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا آغاز کر دیاگیا ہے ‘ اسی لئے تو ہم نے اسے یک نہ شد دو شد والی صورتحال سے تشبیہ دی ہے ‘ گویا حالات پشتوکی ایک کہاوت میں جا کر”پھنسنے” کی کوشش کر رہے ہیں یوں اگر اس کہاوت کی روشنی میں عوام کو (انتہائی معذرت کے ساتھ) اونٹ سے تشبیہ دیدی جائے توشاید غلط نہ ہو گا ‘ اور کہاوت ایک اونٹ سے کئے گئے سوال پر مبنی ہے یعنی کسی نے ایک اونٹ سے پوچھا تھا کہ یہ بتائو جب تم پہاڑ پر چڑھتے ہو توزیادہ تکلیف ہوتی ہے یا پھر پہاڑ سے نیچے اترتے ہو تو زیادہ مشکل کا سامنا رہتا ہے ‘ اونٹ نے ایک لمحہ سوچے بغیر جگالی کرتے ہوئے کہا ‘ ہر دو لعنت ‘ یعنی کیا چڑھائی کیا اترائی ‘ دونوں پر لعنت ہو ۔ سو بجلی لوڈ شیڈنگ ہو ‘ یا پھر گیس کی عدم دستیابی ‘ دونوں قابل مذت ہیں ‘ اور ابھی گرمی کی توشروعات بھی نہیں ہوئیں مگر لوڈ شیڈنگ ابھی سے ہی خبروں میں اپنی بہار دکھا رہی ہے چہ جائیکہ جب گرمی میں گزشتہ برسوں کی طرح واقعی لوڈ شیڈنگ اپنے رنگ دکھانا شروع کر دے گی اور عوام حسب سابق عذاب سے دو چار ہوں گے ‘ جس سے عوام کے اندر بے چینی کا پیدا ہونا حالات کے عین مطابق ہے ‘ اور جہاں تک بجلی کے خالص منافع کا تعلق ہے تو اے جی این قاضی فارمولے کے مطابق یہ منافع بھی ایک عرصے سے نہیں دیا جارہا ہے
ہے میراواسطہ ایسے ”عظیم لوگوں سے
جو میرے ساتھ ہیں اور میرے پیٹ کاٹتے ہیں
رہ گیا معاملہ گیس کا تو ملک کا ہر شخص جانتا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 158 جس کی وضاحت آرٹیکل 161 میں زیادہ صراحت کے ساتھ موجود ہے ‘ میں واضح کیا گیا ہے کہ ملک کے جس حصے میں گیس کے ذخائر ہوں ‘ ان پر پہلا حق متعلقہ صوبے کا ہوگا۔ اسی طرح ذخائر سے ملنے والی آمدن متعلقہ صوبے کو دی جائے گی ‘ مگر یہاں صورتحال یہ ہے کہ بجلی کی طرح گیس کی فراہمی کو بھی ترجیحی بنیادوں پر گیس کے ذخائر کے مالک صوبے کو دینے کی بجائے اس کی تقسیم کیلئے دیگر صوبوں میں تقسیم کے لئے ضروری ”گرڈ” بنا کر پہلے یہ گیس وہاں پہنچانے کا اہتمام کرکے”مالک” صوبے کو اس سے ”محروم” رکھنے کے لئے ایسے اقدامات کئے جارہے ہیں جہاں سے وفاق اپنی مرضی مسلط کرکے اس کی تقسیم میں”ڈنڈی ماری” کی جاتی ہے ‘ چند برس پہلے سی ا ین جی سیکٹر کے خیبر پختونخوا چیپٹر کے ذمہ داروں نے پشاور ہائیکورٹ سے یہ فیصلہ کروایا تھا کہ سی این جی سٹیشنز کو بلا تعطل گیس فراہم کی جائے ‘ جس پر اب تک تو عمل ہوتا رہا مگر رواں برس ایک بار پھر ملک کے دوسرے حصوں کی طرح خیبر پختونخوا میں سی این جی سیکٹر کو گیس کی فراہمی پہلے روک دی گئی تھی اور عدالت سے رجوع کرنے کے بعد ہفتے میں مخصوص دنوں کے لئے سپلائی بحال کر دی گئی، مگر اس کے نتیجے میں گزشتہ روز ایک بار پھر گھریلوصارفین کی مشکلات میں اضافے کے نتیجے میں اور انہیں ریلیف دینے کے لئے سی این جی سیکٹر کو سپلائی پھر محدود کرتے ہوئے صورتحال میں بہتری کی کوشش کی گئی ‘ مگر معاملہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا ہے ‘ یعنی نہ تو سی این جی سیکٹر کومطمئن کیا گیا نہ ہی عام گھریلو صارفین کے مسائل حل ہونے کی امید ہے’ تاہم جیسے جیسے گرمی بڑھتی جائے گی اور گیس کے استعمال میں کمی ہو گی تو ممکن ہے کہ صورتحال وقتی طور پر بہتر ہوسکے لیکن بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی ‘ کیونکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا ایک بار پھر آغاز ہو رہا ہے اور پھر شدید گرمی میں لوڈ شیڈنگ سے نجات کے لئے لوگ گھروں اور خاص طور پر مارکیٹوں اور بازاروں میں جنریٹرز کا استعمال شروع کر دیں گے تو وہ متبادل کے طور پر جنریٹرز کو بھی گیس سے چلانے کی کوشش کریں گے ایسی صورتحال میں بجلی کی قلت کے ساتھ ساتھ گیس کی قلت پھر پیدا ہوجائے گی ‘ اس کے بعد لوگ کیا ایک دوسرے کو یہ نہیں کہیں گے کہ ”تیرا کیا بنے گا کالیا؟” اور پھر کس سے فریاد کریں گے کہ ہمارے مسائل حل کریں ‘ پروفیسر طہٰ خان مرحوم نے ”عوامی نمائندوں” کے حوالے سے کیا خوب کہا تھا کہ
ووٹ لیکر وہ عوام الناس سے تائب ہوئے
مل گئی کرسی تو اپنی رائے سے صائب ہوئے
میرے گھر آتے نہیں اور اپنے گھر ملتے نہیں
میرے خادم دیسی انڈوں کی طرح غائب ہوئے

مزید پڑھیں:  پشاور میں آتشزدگی کا واقعہ