مشرقیات

”سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے”اور ظاہر زبان وبیان کا یہ دھوم دھام سے تماشا ہمارے ہاں کی سیاسی لات کی ہی مرہون منت ہے جو ایک دوسرے کے خلاف ایسے گرج برس رہے ہیں کہ زبان پر ہی ان کا کنٹرول نہیں رہا ایسے میں ان کی قادرالکلام سے سب محظوظ ہو رہے ہیں۔ہمارے ایک دوست اپنے تمام تر تجربے کے باوجود ایک بار محفل میں تقریر دل پذیر کرتے ہوئے کہہ گئے تھے کہ مختلف مکتبہ کفر سے تعلق رکھنے والے لوگ حکومت سے تنگ ہیں ،بعد میں انہیں احساس ہوا تو کہنے لگے ان کا مطلب ہے مختلف مکتبہ فکر کے لوگ۔۔۔ہم نے انہیں تب بھی کہا تھا آپ کی زبان پھسل گئی مگر اس پھسلن میں بھی خاصا وزن ہے ،اپنے وطن عزیز میں جس طرح مختلف مکتبہ فکر کے لوگ حکومت سے تنگ ہوتے ہیں اس سے زیادہ اپنے مکتبہ فکر کے لوگوں کی انہیں فکر رہتی ہے اور بات بات پر یہاں ایک دوسرے مکتبہ کفر میں شامل کرنے والوںکی کمی نہیں ہے۔بہرحال بات زبان پھسلن کی ہورہی ہے اور یہ آپ بھی مانیں گے کہ زبان درازی ہی زبان کے پھسلنے کی سب سے بڑی وجہ ہے، ایک چھوڑیں درجنوں مثالیں ہم اس کی دے سکتے ہیں۔زیادہ دور نہ جائیں،اپنے کپتان بندوق کی نوک پر کہنے کی بجائے بندوق کی نشست کہہ گئے تاہم یارلوگوں نے اس پر زیادہ دھیان نہیں دیا،ان کے بعد پیپلز پارٹی کے جوان جہاں چیئرمین جب لاڑکانہ سے اسلام آباد تک تقریریںکرتے کرتے تھک گئے تو رخصت ہونے سے قبل انہوں نے کانپیں ٹانگ جاتی ہیںکا شگوفہ چھوڑ دیا۔ان کی زبان کی یہ پھسلن راتوں رات ایسی مقبول ہوئی کہ شاعروں کے کلام تک میں ترمیم واضافہ کرکے سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصروں اور میمز کی بہار آگئی اوپر سے کپتان اور ان کی جماعت کے دیگر رہنمائوں نے بھی ان پر طنز کی برسات کر دی ،بقول وفاقی وزیر اطلاعات کے بلاول کے دس روزہ مارچ کا اختتام ہنسی پر ہوا۔بلاول بھٹوکے بعد اپنے وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کی رٹ کو مولانا کی سپاہ نے چیلنچ کیا تو وہ آپے سے باہر ہوگئے انہوں نے اپنے تمام حریفوںکو جہاں کھلا پیغام دیا کہ وہ کسی کو چھوڑیں گے نہیں وہیں ان کی زبان پھسلی تو منہ سے نکل گیا کسی نے قانون میں ہاتھ لیا تو۔۔۔۔یہ تو ہوئے حال ہی میں زبان وبیان کے نادر ونایاب واقعات اب مسئلہ یہ ہے کہ میدان ہنوز گرم ہے اور ہمارے سیاستدانوں نے جہاں ایک دوسرے کے خلاف زبانی وکلامی گولہ باری جاری رکھی ہوئی ہے وہیں ان کی زبان دوبارہ پھسلنے کے بھی قوی امکانات ہیں۔سیانے کہتے ہیں کہ بندہ سچ بولے تو اس کی زبان دل کی رفیق بن جاتی ہے اور اس کے پھسلنے کے کم ہی امکانا ت ہوتے ہیں تو بس ثابت ہوا کہ ہمارے سیاستدان سچ بولنے سے احتراز ہی برتتے ہیں ،جھوٹ بولتے ہوئے بھی ان کی زبان سے سچ کم ہی نکلتا ہے اس لئے کم ازکم اس معاملے میں ہم انہیں ہوشیار ہی قرار دے سکتے ہیں ،تاہم زبان پھسلنے کے واقعات میں جس قدر اضافہ ہورہاہے اسے دیکھتے ہوئے ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ سیاستدان جھوٹ بولتے ہوئے بھی زبان کو قابو میں رکھیں گے کہ بے قابو زبان انہیں کہیں کا نہیں رکھے گی۔کم ازکم جھوٹ ہی سلیقے سے بولتا سیکھ لیں۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے نئے منصوبے اور آئی ایم ایف کا دباؤ