ڈینگی کے خطرات اور تدارک

گرمی کی شدت میں بتدریج اضافے کے ساتھ ہی ڈینگی بخار کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں ‘ تاہم بعض اخباری اطلاعات کے مطابق کمشنر پشاور ڈویژن ریاض خان محسود نے ازخود متحرک ہو کر جس فرض شناسی کا ثبوت دیا ہے وہ یقینا قابل ستائش ہے’ اس ضمن میں کمشنر کی نگرانی میں آگاہی مہم کے دوران گھر گھر جا کر عوام کو ضروری اقدامات اٹھانے کا مشورہ ‘احتیاطی تدابیر اختیار کرنے اور اس حوالے سے پمفلٹ تقسیم کرنے کے علاوہ اس مقصد کے لئے قائم فری کیمپ کا بھی دورہ کیا اور وہاں موجود عوام سے معلومات حاصل کیں ‘ کمشنر پشاور نے عوام سے اپیل کی کہ وہ نہ صرف ا ختیاطی تدابیر پرعمل کریں بلکہ بخار کی صورت میں فری میڈیکل کیمپ میں ضرور اپنا چیک اپ کرائیں تاکہ ڈینگی کی صورت میں ان کا فوری علاج کیا جاسکے اور مرض کوپھیلنے سے روکا جا سکے ‘ اس ضمن میں جو اقدام اٹھائے جا رہے ہیں ان کی افادیت سے انکار ممکن نہیں ہے ‘ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈینگی سپرے کو بھی معمول بنایا جائے اور پورے شہر میں ہفتے میں کم از کم ایک بار سپرے کرنے کا اہتمام کیا جائے ‘ ڈبلیو ایس ایس پی اور ٹی ایم او کو جاری ہدایات پر عمل درآمد کی مناسب نگرانی کا بھی اہتمام کیا جائے ‘خصوصاً نکاسی آب کے نالوں او نالیوں کی مستقل صفائی کی اشد ضرورت ہے تاکہ پانی کے جو ہڑ نہ بن سکیں جہاں ملیریا بخار کے علاوہ ڈینگی کے لاروے بھی پرورش پا کر انسانی جانوں کے لئے خطرے کا باعث ہوتے ہیں، عوام کی اپنی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام تر احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لا کر از خود حفاظت کا اہتمام کریں۔
زنانہ پوسٹوں پر مردوں کی تقرری؟
خیبر پختونخوا کے پانچ قبائلی اضلاع میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرزنانہ کی عدم تعیناتی کے نتیجے میں محکمہ تعلیم نے خواتین کے لئے مختص اسامیوں پر مردانہ ایجوکیشن افسروں کو عارضی طور پر تعینات کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے ‘ اسے کسی طور پر بھی مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا ‘ اطلاعات کے مطابق صوبے کے پانچ قبائلی اضلاع اورکزئی ‘ جنوبی اور شمالی وزیرستان ‘ باجوڑ اور کُرم میں گزشتہ کئی ماہ سے خواتین ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کی اسامیاں خالی ہیں اور ان پر تعیناتی نہیں کی گئی ‘ جس کے نتیجے میں متعلقہ علاقوں کی مقامی خواتین اساتذہ کو دفتری امور میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق جب تک خواتین سٹاف کا بندوبست نہیں کیا جاتا اس وقت تک محکمہ تعلیم نے اس پوسٹوں پر خواتین افسران کی دستیابی تک مردانہ ایجوکیشن افسران کو عارضی طور پر تعینات کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے اور اس مقصد کے لئے آئندہ چند روز میں اعلامیہ جاری کئے جانے کا امکان ہے ‘ ا طلاعات یہ بھی ہیں کہ اس وقت ضلع خیبر اور کرم میں خواتین ڈی ای اوز ہی کام کر رہی ہیں جبکہ باقی پانچ ضم اضلاع میں محکمہ خواتین افسران کو تعینات کرنے میں مبینہ طور پر لیت و لعل سے کام لے رہا ہے ،اگرچہ ان پوسٹوں پر کچھ خواتین نے بھی ا پلا ئی کیا ہے مگر محکمہ تعلیم نے ان کی سمری واپس کر دی ہے، اس حوالے سے محکمہ کا کیا موقف ہے اس بارے میں معلومات سامنے نہیں آسکیں ‘ اگرچہ عام طورپر خواتین خصوصاً دور دراز قبائلی اضلاع میں خدمات انجام دینے سے کتراتی ہیں ‘ مگر جب صورتحال یہ ہے کہ ان حالات میں تبدیلی آچکی ہے اور خواتین اپنی مرضی سے وہاں خدمات انجام دینے کے لئے تیار ہیں تو محکمہ تعلیم کیوں ان کی تعیناتی میں روڑے اٹکا رہا ہے ‘ امید ہے صوبائی وزیر تعلیم اس صورتحال کا نوٹس لیں گے اور اس مسئلے کو حل کرنے کی سعی کریں گے۔
لمپی سکن بیماری کا خوف
پنجاب اور سندھ کے مویشیوں میں لمپی سکن کی بیماری نے ملک بھر میں شہریوں کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے ‘ پشاور میں بھی شہریوںکی طرف سے گوشت کے استعمال میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے، اگرچہ خیبر پختونخوا میں اب تک لمپی سکن کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا جبکہ محکمہ لائیو سٹاک نے صوبے کے مویشیوں کو محفوظ رکھنے کیلئے اپنی حکمت عملی وضع کر لی ہے ‘ اور اس مقصد کے لئے پنجاب اورسندھ سے لائے جانے والے مویشیوں کی جانچ پڑتال کے لئے 26چیک پوسٹیں قائم کر دی ہیں ‘ یہ چیک پوسٹیں ایبٹ آباد ‘چارسدہ ‘ ڈی آئی خان ‘ پشاور ‘ مانسہرہ ‘ ہری پور ‘ نوشہرہ ‘کوہاٹ ‘ لکی مروت ‘ صوابی اور جنوبی وزیرستان میں قائم کی گئی ہیں ‘ ان چیک پوسٹوں پر تکنیکی عملہ بھی تعینات کر دیا گیا ہے ‘ جو دوسرے صوبوں سے لائے جانے والے مویشیوں کی جانچ کے بعد انہیں اضلاع کے اندر لے جانے کی اجازت دے گا ۔ علاوہ ازیں مویشیوں پر ضروری سپرے کا اہتمام بھی کیا گیا ہے ۔ مویشیوں میں یہ بیماری مچھروں اور مکھیوں کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے مویشیوں میں میڈکائو جیسی بیماری نے بہت نقصان پہنچایا تھا ‘ اب یہ ایک نئی قسم کی بیماری ہے جس کی وجہ سے متاثرہ موشیوں کا گوشت استعمال کرنے سے انسانی صحت کو بھی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں ‘ اس لئے جہاں سندھ اور پنجاب سے درآمد کئے جانے والے مویشیوں کا چیک اپ ضروری ہے وہاں جانوروں کے باڑوں میں سپرے کا بندوبست کرنا بھی لازمی ہے ‘ تاکہ خیبر پختونخوا میں جانور اس بیماری سے محفوظ رہیں ۔ امید ہے کہ متعلقہ ادارے اور محکمہ کے ذمہ دار حکام اور کارکن سخت احتیاطی تدابیر اختیارکرکے اس بیماری کے پھیلائو کو روکنے میں اپنا کردارادا کریں گے۔

مزید پڑھیں:  عوام کْش''تاریخ ساز''وفاقی بجٹ