سیاست افہام و تفہیم کی متقاضی ہے

ملکی سیاست کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال پر غیر جانبدارانہ نظر ڈالی جائے تو افسوس کا اظہار کئے بنا نہیں رہا جا سکتا ‘ سیاست کے تقاضے افہام وتفہیم اور ایک دوسرے کی بات سن کر ملک و قوم کی بہتری کیلئے باہمی کے ساتھ دست تعاون بڑھانے سے عبارت ہیں ‘ لیکن بدقسمتی سے موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد حزب ا ختلاف کی جماعتوں سے تعاون حاصل کرکے ملکی مسائل حل کرنے کے بجائے ان کے ساتھ مخاصمت بڑھانے ‘ انہیں نامناسب القابات سے نوازنے اور آئینی تقاضوں کے مطابق دست تعاون بڑھانے سے گریز کی پالیسیاں ا ختیار کیں ‘ جن معاملات پر قائد ایوان اور قائد حزب ا ختلاف کے مابین آئینی ضرورت کے تحت میل ملاقات اور گفت و شنید کی ضرورت تھی ‘ وہاں بھی ان کو چور ‘ ڈاکو کہہ کر صلاح مشورے سے صاف انکار کرتے ہوئے تذلیل کا رویہ اختیار کیا گیا ‘ ان کو جیلوں میں ڈالا ‘ ان پر مقدمات قائم کئے گئے ‘ یہاں تک کہ ان کی زندگی تنگ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ‘ اور مخالفانہ پروپیگنڈہ سے ان کو بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی ‘ دریں حالات مخالف سیاسی قوتوں کو بھی بالآخر حکومت کو آئین کے مطابق تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرنے کے لئے ایک ساتھ بیٹھ کر سرجوڑنے پر مجبور کیا ‘ اور اس وقت حکومت کو عدم اعتماد کی تحریک کا سامنا ہے ‘ نتیجہ کیا ہو گا اس حوالے سے مختلف آراء سامنے آرہی ہیںجبکہ حتمی طور پر فی الحال کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا، اس لئے کہ لمحہ بہ لمحہ صورتحال تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے اور ہار جیت کے پلڑے کبھی ایک جانب اور کبھی دوسری جانب جھکتے دکھائی ہیں ‘ یہ بات بہرحال حوصلہ افزاء ہے کہ تین روز پہلے اپوزیشن رہنمائوں کے خلاف ایک جلسے میں جو نامناسب رویہ اختیار کیا گیا اور ان پر رکیک حملے کئے گئے’ گزشتہ روز کے ایک اور جلسے میں اس سے احتراز کیاگیا’ ویسے بھی ا صولاً ذاتی حملوں سے صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ‘ اگرچہ ایسے لہجے کیلئے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو جواز نہیں بنایا جا سکتا کہ آئین کے تحت حزب ا ختلاف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ملکی مفاد میں جب بھی چاہئے سرکاری پالیسیوں کے خلاف عوام کے مفاد میں قدم اٹھائے ‘ تاہم جب سے حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس حوالے سے سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں وزیر اعظم سے لیکر وزراء ‘ مشیران کا لہجہ تلخ سے تلخ تر ہوتا جارہا ہے ‘ تازہ ترین خبروں کے مطابق حزب اختلاف سے ان خدشات کے پیش نظر حکومت تحریک عدم اعتماد والے روز ممبران پارلیمنٹ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے روکنے کیلئے ڈی چوک میں بقول سرکار دس لاکھ افراد لا کر مظاہرہ کرے گی ‘ اپنی سٹریٹیجی تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اب اگرچہ دعوئوں کے مطابق ان کے پا س گنتی پوری ہو چکی ہے بلکہ مقررہ تعداد سے کہیں زیادہ ممبران کی حمایت کے دعوے بھی کئے جارہے ہیں ‘ تاہم بعض اطلاعات کے مطابق سپیکر کے مبینہ ”جانبدارانہ” رویے کی وجہ سے اعدادو شمار کے حوالے سے منفی نتائج پیدا ہو سکتے ہیں اور اگر ڈی چوک میں حکومت واقعی اپنے حامیوں کو لا کر کسی بھی ممکنہ ناخوشگوار صورتحال پیدا کرنے میں کامیاب ہوتی ہے تو نہ صرف تصادم کا خطرہ ہے بلکہ سپیکر کی رولنگ کے خلاف حزب اختلاف عدالت سے رجوع کرتی ہے تو معاملہ دو تین ماہ کے لئے ضرور اٹک سکتا ہے ‘اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے حزب اختلاف نے حکومت کے اتحادیوں سے رابطے تیز کر دیئے ہیں اور ممکن ہے کہ ان سطور کے شائع ہونے تک غیر یقینی کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہو ‘ یعنی اگر مخالف جماعتوں کی حکمت عملی کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر تحریک عدم اعتماد کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی بلکہ الٹا وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ بہرحال تیزی سے لمحہ بہ لمحہ تبدیل ہوتی ہوئی صورتحال میں ملکی مفاد کا تقاضا یہ ہے کہ معاملات کو باہم گفت و شنید اور افہام و تفہیم سے حل کیا جائے ‘ جس کے لئے اہم ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے اور جس طرح بعض وفاقی وزراء بھی اسی جانب اشارے کر رہے ہیں ‘ تو یہ سرکارہی کا فرض ہے کہ وہ صرف زبانی کلامی دعوے نہ کریں بلکہ وزیر اعظم کی آشیر باد سے ایک جرگہ بنا کر حزب اختلاف کے رہنمائوں سے رابطہ قائم کرکے معاملات کو حل کرنے کی سعی کریں ‘ تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعظم اپنے سابق رویے پر نظر ثانی کریں اور اب تک حزب اختلاف کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے ان سے ہاتھ ملانے سے گریز کرتے رہے ہیں ‘ ان کو جمہوریت کا اہم ستون سمجھ کر اپنے وزراء کو رابطے کی ہدایت کرکے بات چیت کا ڈول ڈالنے کی راہ اپنائیں ‘ اب آنے والے انتخابات میں مدت ہی کتنی رہ گئی ہے ‘ اس لئے بہتر یہی ہے کہ حزب اختلاف کے رہنماء بھی ا پنی سوچ تبدیل کرکے ملکی مفاد میں تحریک عدم اعتماد کی واپسی پر ہمدردانہ غور کریں ‘ کیونکہ تصادم کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے ‘ کیونکہ عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف جو سازشیں پنپ رہی ہیں اور پاکستان کے ازلی دشمن پاکستان کو نہ سیاسی تنہائی کا شکار کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں بلکہ اسے بلیک لسٹ میں ڈالنے اور اس پر دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کے الزامات لگا رہے ہیں ‘ ان کے نتائج بہت ہی بھیانک ہو سکتے ہیں ‘ ان سازشوں کو ناکام بنانے کے لئے حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کو ملک و قوم کے بہترین مفاد میں مناسب فیصلہ کرنا پڑے گا ‘ تاکہ ملک کو اتحاد و اتفاق سے ترقی کی راہ پرگامزن کیا جا سکے ۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے نئے منصوبے اور آئی ایم ایف کا دباؤ