امریکہ کی حکومت کے خاتمے کا اعلان

روس اور یوکرائن معاملے پر بھانت بھانت کی بولیاں سنائی دیتی ہیں۔ جنگ میں کبھی کوئی بھلائی نہیں ہوتی ‘ محض طاقتور کی کمزور سے پنجہ آزمائی ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جنگ کے نتیجے میں کبھی یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اس میں طاقتور کی ہی فتح ہو گی یا کمزور اتنا بہادرہوجائے گا کہ طاقتور کو تھکا دے گا۔ اس جنگ میں بھی بس اندازے ہی اندازے ہیں۔ قوی امکانات جس جانب اشارہ کر رہے ہیں اس میں کوئی اچھنبا نہیں۔ یوکرائن نے مغرب کے وعدوں پر اعتبار کیا اسے سادہ لوحی نہ کہا جائے تو اور کیا کہیں۔ امریکہ اور امریکی حواری جب کسی کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کریں مستقبل کے سہانے خواب دکھائیں ‘ ا سے بتائیں کہ وہ کتنا مضبوط ہو سکتا ہے ‘ اس ایک خطے میں اس کی کتنی اہمیت ہے اور اسے اپنی اس اہمیت سے کس قدر فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ جب بھی کسی ملک کو اس غلط فہمی میں مبتلا کیاگیا ہے اس نے خوشدلی سے یہ چال قبول کی ہے اور کبھی تاریخ ے اس سبق کی جانب نگاہ بھی نہیں بھری کہ امریکہ کے ہر سراب کے پیچھے اپنی ہی خواہشات کا ایک انبار ہوا کرتا ہے ۔ یوکرائن پر روسی حملے کے بعد سے نیٹو اور امریکہ سے بس مدد کی آوازیں ہی آرہی ہیں جس طرح پاکستان کے لئے بھارت کے ساتھ جنگ میں بحری بیڑا نہ پہنچا تھا اس ہی طرح یوکرائن کی اس جنگ میں امریکہ یا نیٹو کی کوئی امداد نہیں پہنچی اور نہ ہی پہنچے گی۔ یوکرائن کے صدر ٹی وی اور میڈیا پر نیٹو کو مدد کی دہائیاں بھی دیتے رہے لیکن انہیں معلوم ہی نہ تھا کہ ایسا ہی ہوا کرتا ہے ۔ ہاں اس جنگ کا نیٹو کو یہ فائدہ ہوا کہ دو مزید ممالک نیٹو میں شامل ہونے کا اعلان کر رہے ہیں ۔ سویڈن اور فن لینڈ پہلے نیٹو میں شامل نہیں تھے لیکن اب وہ بھی نیٹو میں شامل ہونے کو تیار ہیں۔نیٹو ممالک میں سے صرف جرمنی ہے جو اس وقت یوکرائن کو ہتھیار فراہم کرنے کی بات کر رہا ہے ۔ امریکہ کا توعالم یہ ہے کہ وہ روس کو معاشی اور معیشتی طور پر تباہ کرنا چاہتا ہے ۔ اسی کے اقدامات کئے جارہے ہیں ۔ یوکرائن کو اکسا کر ‘روس کو اس جنگ میں دھکیلا گیا کیونکہ امریکہ روس کی بڑھتی ہوئی معیشتی طاقت سے خوفزدہ تھا۔ سرد جنگ کا جو دور امریکہ نے روس کے مد مقابل گزارا ہے وہ اس سے اس قدر خوفزدہ ہے کہ وہ کبھی بھی روس کو طاقتور ہوتے نہیں دیکھ سکتا۔ اس سرد جنگ سے چھٹکارا پانے کے لئے امریکہ نے افغانستان میں روس کو زخمی کیا تھا۔ افغانستان پر روس کا حملہ ذرا مختلف وجوہات کی بناء پر تھا لیکن امریکہ نے اس موقع کواپنے مفاد کے لئے بھر پور طور پر سے استعمال کیا۔ روس اس جنگ میں معیشتی اعتبار سے اتنا کمزور ہوگیا کہ ایک طویل عرصے تک دوبارہ اٹھ نہ سکا۔ اب روس کی معیشت دوبارہ مستحکم ہو رہی تھی۔ امریکہ کو نہ صرف روس سے خطرہ ہے بلکہ اس ایشیائی بلاک سے خطرہ ہے جو اس کے مقابلے میں تیار ہوتا نظر آرہا ہے جس کے تین بنیادی کھلاڑی روس ‘ چین اور ترکی ہونگے ۔ گزشتہ کچھ سالوں میں ان ممالک کے درمیان کئی قسم کے عسکری اور معاشی معاہدے بھی ہوئے ۔ امریکہ اپنے وار کے لئے صحیح وقت کا انتظار کرتا رہا۔ یہ وقت اسے یوکرائن کی صورت میں ملا۔ اس وقت وہی حکمت عملی دہرائے جانے کا احتمال ہے جو افغانستان میں امریکہ نے روس کے خلاف اپنائی تھی ۔ جرمنی یوکرائن کو ہتھیار اور عسکری قوت فراہم کرنا چاہتا ہے ۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی اور روس ساتھی رہے ہیں لیکن اب وقت بدل چکا ہے ۔ یورپ اب بھی اپنی طاقت کے زعم میں ہے جو امریکہ کی طاقت کے زوال کے ساتھ ہی اپنی رہی سہی چمک بھی کھو دے گی۔
وقت بدل رہا ہے ۔ اب دنیا میں عالمی طاقت کے مسند پر امریکہ کے بیٹھنے کا وقت بھی تمام ہو رہا ہے ۔ اب وقت ہے کہ چیں اس مسند پر اپنی جگہ سنبھالے اور اس کے ساتھ روس اور ترکی بھی ہوں۔ اب وقت کا پانی دوسری سمت میں بہنے کی تیاری ہے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ طاقتیں جنہوں نے طویل عرصے تک حکومت کی ہوتی ہے انہیں یہ احساس ہوتے ہوتے دیر لگتی ہے ۔ انہیں یہ گمان ہی رہتا ہے کہ وہ جوانی میں جتنے طاقتور تھے اب بھی ان کے بازئوں میں اتنا ہی دم ہے جبکہ وقت کا ڈھل جانا سب سے بڑی کمزوری ہے ۔ صرف اس کمزوری کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب کسی پنجہ آزمائی میں مات ہوتی ہے یوکرائن کی جنگ وہی پنجہ آزمائی ہے افغانستان کی جنگ میں روس تنہا تھا۔ اس جنگ میں ممالک اس کے ساتھ موجود ہیں اور اپنے اس ساتھ کا برملا اظہار بھی کر رہے ہیں۔یوکرائن کی اس جنگ پر عالمی میڈیا کتنا بھی شور مچا لے جو بھی کچھ کہہ لے یہ جنگ روس کی طاقت کے اظہار کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس کے وقت کی حکمت عملی بھی مرتب کی جا چکی ہے ۔ اس جنگ میں نیٹو خاص طور پر امریکہ کو ایک واضح پیغام مل جائے گا اس کے سن رسیدہ ہونے کی اطلاع دنیا میں بھی پھیل جائے گی۔ یوکرائن جیسے چھوٹے ملکوں کو بھی معلوم ہو گا کہ اب ان کا اتحاد کن ملکوں سے ہونا ان کے مفاد میں ہو گا۔ یوکرائن اور روس کی یہ جنگ اس تبدیلی کے آغاز کا اعلان ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں امریکہ کی حکومت کا وقت اب ختم ہوچکا اور یہ جنگ اسی گھنٹی کی آواز ہے ۔

مزید پڑھیں:  عوام کْش''تاریخ ساز''وفاقی بجٹ