مقدر ڈھیلوں سے پھوڑ نا

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ مو اقع کبھی بھی امکا نات کے بغیر جنم نہیں لیا کرتے اگر امکا نا ت ہو ں گے تو مواقع بھی پیدا ہو ں گے ۔جب سے تحریک عد م اعتماد ہو یدا ہوئی ہے تب سے امکا نا ت شہو د پذیرہوگئے ہیں ۔ مصیبت یہ ہے کہ قیا م پا کستان کے ساتھ ہی بعض قوتوں نے اپنے خاص الخاص مفاد ات ومقاصد کے لیے پہلا وار ملک پریہ کیا کہ وطن عزیز کی حقیقی وقومی قیادت کو ختم کر کے اس کی جگہ سیاست دان قیا دت کو لے آئے گویا پاکستان میںرہنماء ختم ہو کر رہ گئے بس سیاست دان رہ گئے جن کا مفاد اسی میں رہا کہ حقائق کو عوام سے پوشید ہ رکھا جائے اور امکا نات و مواقع سے اپنی ذات کو مستفید کیا جائے ۔ پاکستان کا آج کا بحران قومی رہنما ء کے وجو د کا نہ ہو نا ہے ۔ اسی وجہ سے عوام امکانات ومواقع سے نا واقف ہو کر رہ گئی ہے ۔ چنا نچہ ملک یقین اور غیر یقین کی کیفیت کے بیچ پھنس کر رہ گیا ہے ۔چونکہ قومی قیا دت تو رہی نہیںسیا سی قیا دت کو نہ تو مو اقع اورنہ امکا نات کا احساس ہے چنا نچہ تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ کیا رہے گا اس سے کسی کو کوئی آگاہی نہیں عوام تو استفسار ہی کی قدرت رکھتے ہیں اس سے بڑھ کر نہیں دیکھ سکتے کہ اس تحریک کی منظوری یا نہ منظوری کے اثرات کیا رہیں گے ۔ہر ما تھے پر ایک ہی سوال لکھا ہو ا ہے کہ تحریک عدم اعتما د کا میا ب ہو جائے گی یا ناکا م ہو جائے گی ، جس کا جو اب نہ تو تحریک پیش کر نے والو ں کے پا س ہے اورنہ تحریک کا سامنا کر نے والو ں کو معلوم ہے ۔ اگر پی ٹی آئی کے پا س اکثریت ہے تو وہ تحریک پیش کرنے والو ں کو مدعو کر تی کہ آئیے اس آئینی قدم کا فیصلہ قانون ، قواعد اور آئین کے راستے سے کرلیتے ہیں ۔ لیکن جو طر ز جدوجہد پی ٹی آئی نے تحریک کے خلاف سینہ سپر ہونے کا اپنایا ہے اس نے یہ قلعی کھول دی ہے کہ پی ٹی آئی کو خود یقین نہیں کہ اس کے پا س مینڈیٹ رہا ہے یا نہیں ۔حزب اقتدار اورحزب اختلاف نے عدم اعتما د کی وہ اودھم مچا رکھی ہے کہ خوشگوار ما حول کا ستیا نا س ہو کر رہ گیا ہے جس کے منفی اثرات زندگی کے ہر شعبے پر پڑرہے ہیں ۔ وزیر اعظم کا کا م بس اتنا تھا کہ جب ان کے خلا ف تحریک پیش ہوئی تھی تب وہ ٹھنڈے پیٹوں پا رٹی کے پارلیما نی ارکا ن کا اجلا س بلوالیتے اور تحریک کا معاملہ ان کے سامنے رکھ دیتے جس سے بخوبی اندازہ ہو جاتاکہ پارٹی کا ان پر اعتما د ہے یا نہیں اگر ان پر سے اعتما د پارٹی کے ارکا ن کا جا تا رہا ہے تویہ بھی طے کیا جا سکتا تھا کہ ان کی جگہ پارٹی کو کس پر اعتما د ہے ۔ مگر جو کھیل کھیلا گیا ہے وہ بداعتما د ی کا مظہر ہے ۔وزیر اعظم پا رٹی کے ارکا ن پارلیمنٹ سے پا نچ پا نچ کی ٹولی میںتو ملا قاتیں کر رہے ہیں ۔ اتحادیو ں کے پا س بھی بار بارجا رہے ہیں ۔ یہ سب منفی امکا نا ت کی نشاندہی کر تے ہیں ۔مسلم لیگ ن کے صدر شہبا ز شریف نے بھی پارٹی کے تما م ارکا ن کا ایک ہی مرتبہ اجلا س بلا یا جس میںسب کو اکٹھا مدعو کیا اور تما م ارکا ن پارلیمان اجلا س میں شریک ہوئے ایک بھی غیر حاضر نہ تھا ۔ اب ایک طرف پی ڈی ایم نے 23مارچ کو لا نگ ما رچ کا بھونپو بجا دیا ہے تو دوسری جا نب غالباً27مارچ کو ڈی چوک پر دس لا کھ کا عوامی سونا می لانے کا تحریک انصاف نے بگل بجایا ہے ۔ جہا ںایک افراتفری کی فضاء قائم ہو رہی ہے وہا ں یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ بڑی پارٹیا ں تواپنی سیا سی مقبولیت کی
جدوجہد میں مصروف ہیں تو دوسری طر ف ٹانگہ پارٹیاں اپنے لیے مواقع ڈھونڈ رہی ہیں ان کا تحریک کے محرکا ت ومقاصد سے کوئی لینا دینا نظر نہیں آرہا ہے بلکہ وہ اپنے مستقبل کی سیا ست کی ہا نڈی کے لیے خرید وفروخت کے مواقع اورامکا نات کی گنگامیں ہا تھ دھونے کے چکر میںپڑے ہوئے ہیں ۔ تاکہ تحریک عدم اعتما د کے جل سے پو تر تا ہو جائیں ۔ کیاجو آج مسندسیا ست یا اربا ب حل وعقد بنے بیٹھے ہیںیہ نہیں جا نتے کہ دشنا م طرازی فرار کا راستہ تو ہے مگرمواقع پیداکر نے کا راستہ نہیں ہے ، چناںچہ آج کی نسل اس گو مگو کا شکا ر ہے کہ اس کا مستقبل کیا ہے ۔کیاحکومت باخبر نہیں کہ اس کے پا س منڈیٹ رہا ہے یا نہیں اگر رہا ہے تو وہ اس راہ پر کیو ں چل رہی ہے جس کے بارے میں خود عمر ان خان نے فرمایا تھا کہ اگر مجھے نکالا تو میں پہلے سے زیا دہ خطرنا ک ہوں گا اور اس خطرناکی کی مشق انھوں نے عوامی اجتماعات کے ذریعے شروع تو رکردی ہے اور ڈی چوک پر دس لا کھ افراد کی بھیڑ لگانے کے نماشا کا بھی اعلا ن کردیا ہے ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا ہے کہ تحریک عدم اعتما د کے لیے ووٹ پول کرنے والو ں کو عمر انی بھیڑکوعبور کر کے گزر نا پڑنا ہو گا ۔ جس کے بارے میںمخالفین کا کہنا ہے کہ یہ ارکان پارلیمان پر دباؤڈالنے کا حربہ ہے ۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ دشنا م طرازی کاہنر تعمیر کو اجا ڑ دیتا ہے کیو ں کہ ہراس اور انتقام اس سے جنم لیتے ہیں ۔افسو س یہ ہے کہ یہ وتیر ہ ہو چلا ہے کہ اپنے کئے کا ملبہ دوسروں پر انڈیل دینا رواج ہو گیا ہے اور جس میںجتنا انتقام کا یا را ہو تا ہے اس کو اتنا بڑا طاقتور جان لیاجاتا ہے یہ سب عوامل ذات کے لیے تو ہو سکتے ہیں مگر یہ تو ذات کوبھی توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیںپر ویز مشرف زند ہ مثال ہے ۔ چنانچہ قومی رہنما ء بن بیٹھنے والوںکا فرض عین ہے کہ وہ مقصد سعید کے لیے جئیں اور مقصر بد سے فرار اختیا ر کر یں تب جاکر قوم کی خوش بختی رنگ لائے گی ۔

مزید پڑھیں:  آتشزدگی سے متاثرہ علاقے میں تجاوزات