عدم اعتماد کا فیصلہ ڈی چوک

عدم اعتماد کا فیصلہ ڈی چوک پر؟

مولانا فضل الرحمان کی جانب سے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)کے اعلان کے مطابق کارکنوں کو23مارچ کو ملک بھر سے اسلام آباد روانہ ہونے کی ہدایت کرتے ہوئے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ تک دارالحکومت میں رہنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ اس آئینی اقدام کا دستوری’ قانونی’ پارلیمانی اور جمہوری دائرے میں رہ کر سامنا کرنے کے بجائے حکومت آئین شکنی کی راہ اپنا چکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ارکان قومی اسمبلی کو ایوان میں آنے سے روکنے کی کھلے عام دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کے تحت ارکان قومی اسمبلی کا بنیادی فرض اور حق ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اپنے دستوری’ جمہوری اور پارلیمانی فرائض انجام دیں’ ان کی نقل وحرکت پر کوئی قدغن عائد نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی انہیں رائے دہی سے روکا جاسکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اراکین اسمبلی کو ان کی ذمہ داریوں سے روکنا دستور پاکستان کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے’ جس کی سزا آئین کے آرٹیکل 6میں واضح طور پر درج ہے۔دوسری جانب تحریک ا نصاف کی جانب سے بھی اسی طرح کی تیاریاںجاری ہیں اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کو 24مارچ کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے جس کا مقصد ستائیں مارچ کے تحریک ا نصاف کے جلسے کی تیاریاں ہیں کارکنوں کو ڈی چوک پر کیمپ لگانے کی باقاعدہ ہدایت کی گئی ہے ۔ ہر دوجانب کی تیاریوں سے ایسا لگتا ہے جیسا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کادارومدار ایوان میں اراکین اسمبلی کی اکثریت و اقلیت پر نہیں بلکہ ڈی چوک کے جلسے میں ہونا ہے ہر دو جانب سے جس طرح کی تیاریاں جاری ہیں اس سے سیاست پارلیمان کی بجائے سڑکوں پر آگئی ہے اور حکومت و حزب اختلاف ڈی چوک پر آمنے سامنے ہیں بلکہ ڈنڈے کا جواب ڈنڈ ے اورپتھر کا جواب پتھر سے دینے کے اعلانات کے بعد اس حوالے سے کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے کہ فریقین کو تصادم سے باز رکھنے کے لئے تحریک عدم اعتمادکا اونٹ پارلیمان میں کسی ایک کروٹ بیٹھنے تک اسلام آباد اور گرد و نواح میں ہر قسم کے جلسوں پر پابندی لگا دی جائے ایسا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ انہی ایام میں او آئی سی کا اجلاس بھی اسلام آباد میں ہونے جارہا ہے ساتھ ہی ساتھ 23مارچ کویوم پاکستان کی تقریبات بھی ہونی ہے ان تمام عوامل کے باوجود حکومتی جماعت اور حزب ا ختلاف کی جماعتیں بضد ہیںاس ضمن میں تصادم کی راہ سے بچنے کے لئے سول سوسائٹی کے نمائندوں کو یا پھر اسلام آباد کے شہریوں کو عدالت سے رجوع کرکے حکم امتناعی حاصل کر لینی چاہئے تاکہ ان کے جان و مال کوخطرات درپیش نہ ہوں اور معمولات زندگی و کاروبار حیات متاثر ہونے سے محفوظ رہے جب تک محولہ کیفیت رہتی ہے بعید نہیں کہ کسی دن جڑواں شہروں کے باسی صبح اٹھیں تو سڑکوں پر مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنان ڈیرے ڈال چکے ہوں اور نظر بھی یہی آتا ہے کہ ایسا ہی منظر ہو گا جس سے تصادم تقریباً یقینی ہے ایسا لگتا ہے کہ ہر دوجانب کی حکمت عملی یہی ہے کہ حالات پران کا کنٹرول ہوخاص طور پر حکومتی عناصر کی جانب سے اس طرح کی سعی سمجھ سے بالاتر ہے قبل از وقت کارکنوں کو میدان میں اتار کر تصادم کی کیفیت پیدا کرنے میںحکومت کا توکوئی مفاد نظر نہیں آتا البتہ حزب ا ختلاف اگرایسا کرتی ہے اور حکومتی مشینری ان کو روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کرتی ہے یا پھر تحریک انصاف کے کارکنوں سے ان کا تصادم ہوتا ہے تواس صورت میں بھی عدالت سے ہی رجوع کرکے اس مسئلے میںانصاف طلب کیا جا سکتا ہے بہتر یہی ہوگا کہ اس کی نوبت نہ آنے دی جائے اور عدالت سے بروقت رجوع کیا جائے تاکہ تصادم کی کیفیت نہ آسکے جہاں تک تحریک عدم اعتماد کا تعلق ہے اسے ناکام بنانے کے لئے کارکنوں کے مجمع سے گزر کر ووٹ دینے جانے اور اسی راستے واپسی کا جو امر متعین کرنے کا عندیہ دیا جارہا ہے ضروری نہیں کہ یہ حکومتی پلان کارگر ثابت ہو یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ ایسی سیاسی سرگرمی سامنے آئے جس کے نتیجے میں حکومت کی پوزیشن کمزور ہواہم اتحادی جماعتوں کی جانب سے کوئی بڑا فیصلہ آنے سے صورتحال تبدیل ہو سکتی ہے یا پھر حکومت کے اپنے اراکین کا کوئی گروپ عین وقت پر سامنے آئے ایسا ہونا اس لئے بعید نہیں کہ اس وقت تحریک انصاف کی صفوں میں جس اتحاد کی ضرورت ہے وہ نظر نہیں آتی۔حکومت کے لئے بہتر حکمت عملی ایوان کے اندر تحریک عدم اعتماد کوناکام بنانا ہے جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں کو بھی چاہئے کہ وہ بھی حالات خراب کرنے کی کسی بھی کوشش سے اجتناب کریں۔

مزید پڑھیں:  ٹیکس گردی کا شکارتنخواہ دار طبقہ