بی آر ٹی کے مزید روٹ چلانے کے بڑھتے مطالبات

پشاور کے نواحی علاقوں کے لئے بی آرٹی فیڈر سروس شروع کرنے کے مطالبات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ تو ابتدائی طور پر جن علاقوں کے لئے فیڈر سروس شروع کی گئی تھی دوسرے سال میں بھی اس میں کسی روٹ کا اضافہ سامنے نہیں آیا صورتحال یہ ہے کہ مزید فیڈر روٹ شروع نہ کرنے کی سوائے اس کے کوئی اور وجہ نظر نہیں آتی کہ موجودہ بسیں جاری روٹس کے لئے ہی ناکافی ہیں ایسے میں مزید روٹ کا اجراء ممکن ہی نہیں جن روٹ پر بسیں چل رہی ہیں وہاں پر مسافروں کی تعداد کے مقابلے میں بسیں ناکافی ہیں ہر سٹیشن پر مسافروں کی لمبی قطاریں نظر آتی ہیں خاص طور پر صبح کے وقت جب لوگ دفتروں اور کام کے مقامات اور طالب علم تعلیمی اداروں کو جا رہے ہوتے ہیں اور ان کو بروقت پہنچنا ہوتا ہے ایسے میں قطاروں میں لگے مسافروں کو دو دو تین تین بس پر ہی کسی بس میں جگہ ملتی ہے بی آر ٹی حکام کسی دن مال آف حیات آباد اور گلبہار سٹیشن پر قطاروں میں کھڑے اور کھوے سے کھواچھلتے ہوئے مسافروں کا ہجوم دیکھنے کی زحمت کریں ان سے مل کر ان کے مسائل سے آگاہی کی ذمہ داری نبھائیں توانہیں صورتحال کا علم ہو گا۔مسافروں کی کتنی تعداد روزانہ سفر کرتی ہے اور بسوں کی تعداد کتنی ہے ایک بس میں کتنے مسافروں کی گنجائش اور استعداد ہوتی ہے یہ سب اعداد و شمار متعلقہ حکام کو روزانہ کی بنیاد پر دستیاب ہوتے ہیں اس کے باوجودبھی اگر شتر مرغ کی طرح ریت میں سردیا جائے تو اس بے حسی کا ماتم ہی کیا جا سکتا ہے ۔ٹرانس پشاور کے ترجمان کے مطابق مزید 85بسیں جولائی تک پہنچنے کی توقع ہے مزید بسوں کی آمد کا یہ پہلا مژدہ نہیں بلکہ ہر بار نوید دی جاتی ہے مگرعملی طور پر بسوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہو رہا۔توقع کی جانی چاہئے کہ اس مرتبہ مقرررہ تاریخ تک مزید85بسوں کا اضافہ ہو جائے گا جس کے بعد عوامی مطالبے پرمختلف علاقوں کے لئے فیڈر روٹ کا اجراء ہو گا۔
صارفین حقوق بارے آگاہی کی ضرورت
ڈائریکٹوریٹ جنرل کامرس ا ینڈ انڈسٹریز خیبر پختونخوا کی جانب سے صارف حقوق کے متعلق آگاہی کے لئے سیمینار کا انعقاداحسن قدم ہے اس موقع پر مہمان خصوصی جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس لعل جان نے اپنے خطاب میں صارف حقوق سے متعلق آگاہی کو بجا طور پر وقت کی ضرورت قرار دیا انہوں نے کہا کہ ہر شہری کسی نہ کسی صورت میں صارف ہے اور قانون میں صارفین کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے ۔حکومت کے مختلف انتظامات اور اداروںکی موجودگی کے باوجودعوام کا ان سے عدم رجوع اور مسائل کے حل میں ان کی مدد نہ لینے کی ایک بڑی وجہ عدم آگاہی ہے۔صارفین کے حقوق کے تحفظ کے لئے خصوصی عدالتیں اور انتظامات موجود ہیں مگر عدم آگاہی کے باعث لوگ انصاف کے حصول کے لئے ان سے رجوع نہیں کرتے حالانکہ صارفین کی عدالتوں میں متاثرہ فریق یا شکایت کنندہ اپنا مسئلہ بغیر کسی وکیل کے خود ہی بیان کرتا ہے اور اپنا مقدمہ خود ہی پیش کرتا ہے عدالتوں کا طریقہ کار بھی قانونی طور پر دیگر عدالتوں کی طرح پیچیدہ نہیں بلکہ سادہ ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ اچھے خاصے باشعور شہریوں کو بھی ان عدالتوں کے حوالے سے معلومات نہیں اور نہ ہی ان سے رجوع کرنے کا طریقہ کار معلوم ہے کم ہی لوگوں کو ان عدالتوں کا پتہ معلوم ہوگا۔ان تمام عوامل کے حل کے لئے ضرورت اس امرکی ہے کہ ایک سادہ طریقہ کار کے تحت عوام کو ان عدالتوں کے حوالے سے اور ان سے رجوع کے بارے میںآگاہی دی جائے تاکہ صارفین اپنے مسائل کے حل کے لئے ان سے رجوع کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔
ماحولیاتی آلودگی کا سنگین مسئلہ
خیبر پختونخوااسمبلی میں پشاورمیںفضائی آلودگی میں خطرناک اضافہ اور اس کے انسانی صحت پر انتہائی مضر اثرات کے حوالے سے بحث کرنے کی منظوری سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اسمبلی میں اس مسئلے پر بحث سمیٹا نہیں جائے گا بلکہ اس حوالے سے قوانین پر عدم عملدرآمد کا جائزہ لینے کے بعد متعلقہ اداروں اور حکام سے جواب طلبی بھی کی جائے گی اورآئندہ کے لئے ماحولیاتی آلودگی پرقابوپانے کے لئے ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرکے اس پر عملدرآمدیقینی بنانے کا انتظام بھی کیا جائے گا۔توقع کی جانی چاہئے کہ ماحولیاتی آلودگی ‘ آبی آلودگی اور صحت و صفائی کے جملہ معاملات کی بہتری بارے بھی کوئی ٹھوس لائحہ عمل وضع کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں:  پشاور میں آتشزدگی کا واقعہ