بلدیاتی نظام عضو معطل کیوں؟

خیبر پختونخوا کے 17اضلاع سے منتخب بلدیاتی نمائندوں نے ایسے ماحول میں حلف اٹھا لیا ہے جب ملک میں سیاسی طور پر غیر یقینی کی صورتحال جاری ہے اور مزید اضلاع میں بلدیاتی انتخابات ہونے والے ہیں۔بلدیاتی اداروں کے قواعد و ضوابط نہ ہونے کی وجہ سے جو آئینی و قانونی سقم پیدا ہو گیا ہے اس کے باعث منتخب بلدیاتی نمائندے اپنے چار سالہ مدت کے آغاز میں ہی برائے نام نمائندے ہی کہلائے جا سکتے ہیں ۔ امر واقع یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں اور نمائندوں کو سیاسی حکومتوں میں کم ہی وقعت دی جاتی رہی ہے اراکین پارلیمان بنیادی جمہوریت کے ان نمائندوں کو اپناحریف اور مدمقابل سمجھتے ہیں جبکہ سیاسی حکومتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ بلدیاتی نظام کو مختلف حیلے بہانوں سے عضو معطل بنا دیا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر بار بلدیاتی اداروں کے لئے قواعد و ضوابط بنانے اور اصلاحات کے نام پر ایسی پیچیدگیاں پیدا کی جاتی ہیں کہ یہ نظام بھول بھلیوں کا شکار بنی رہے بلدیاتی نمائندوں کے حوالے سے بیوروکریسی کا کردار و عمل بھی حکومت سے مختلف نہیںبلکہ بیورو کریسی بھی اس ضمن میں حکومت کی ہم خیال اور حلیف ہے ۔چارسدہ تحصیل چیئرمین کی حلف برداری میں سرکاری افسران کی عدم شرکت اور انتظامات سے احتراز اس کی ایک مثال ہے ۔اسی طرح حلف نامہ انگریزی میں جاری کرکے کم تعلیم یافتہ بلدیاتی نمائندوں کو دشواری کا شکار بنانا بھی ان سے مذاق کے مترادف ہے ۔یہ اس طرح کا رویہ اور اقدامات ہی ہوتے ہیں جس کے باعث بلدیاتی ادارے اور نمائندوں کے کام میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔پہلے پہل خیبر پختونخوامیں بلدیاتی نظام میں اصلاحات کے نام پر عرصہ دراز سے کام جاری رکھنے کا تاثر دیا گیا اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں تاخیر درتاخیر ہوتی رہی خدا خدا کرکے جب بلدیاتی انتخابات کا ایک مرحلہ مکمل ہو گیا اور تاخیر درتاخیر کے بعد جب مختلف سطح کے بلدیاتی نمائندوں کی تقریب حلف برداری ہو گئی اور ان کو کام کرنے کا باقاعدہ موقع ملا تو معلوم ہوا کہ وہ قوانین ہی نہیں بنے اور وہ ضابطے ہی تیار نہیں وہ طریقہ کار ہی موجود نہیںجس کے تحت بلدیاتی نمائندے کام کا آغاز کر سکیںدیگر صوبوں میں بھی صورتحال کچھ بہتر نہیں بلکہ سندھ سے لیکر پنجاب و بلوچستان تک کی صوبائی حکومتوں کا رویہ بھی کم و بیش یہی دکھائی دیتا ہے ۔سندھ میں خاص طور پر بلدیاتی اداروں کے لئے قوانین بنانے اور طریقہ کار وضع کرنے کا آئینی و قانونی عمل سیاست کی نذر ہوچکا ہے اگرباقی صوبوں کا بھی جائزہ لیا جائے تو صوبائی حکومتیں بلدیاتی نمائندوں کو تسلیم کرنے اور ان کو کام کا ساز گار ماحول فراہم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ خیبر پختونخوامیںبلدیاتی نمائندوں اور اداروں کا اس طرح سے عضو معطل بنائے رکھنا کسی طور بھی عوامی مفاد میں نہیںیہ اس عوامی مینڈیٹ کی توہین اور اس سے انکار ہی کے زمرے میں آتا ہے کہ بلدیاتی ادارے تو وجود میں آچکے مگروہ کام نہیں کر سکتے ظاہر ہے جب کوئی ڈھانچہ ہی موجود نہیں اور طریقہ کار ہی وضع نہیں تو پھر بلدیاتی نمائندوں کی نشست و برخاست سے لیکر فنڈز کی فراہمی اور استعمال سبھی عمل ممکن نہیں معلوم نہیںبلدیاتی نمائندوں کو اس طرح لٹکائے رکھنے میںکیا حقیقی مشکلات اور مسائل حائل ہیں یا پھر جان بوجھ کر ایسا کیا جارہا ہے جو بھی صورتحال ہواس سے قطع نظراس امر کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہئے کہ صوبائی حکومت بلدیاتی اداروں اور بلدیاتی نمائندوں پر اثر انداز ہودوران انتخابات حکومتی اراکین اور اہم شخصیات کی جانب سے حکومتی جماعت کے امیدوار کو کامیاب نہ کرنے کی صورت میں فنڈز کی عدم فراہمی کی دھمکیاں ریکارڈ پر ہیں اور ان کا الیکشن کمیشن کی جانب سے نوٹس بھی لیا جا چکا حکومتی عناصر کو بلدیاتی انتخابات میں مداخلت پرجرمانے بھی ہو چکے یہ سارا عمل اس امر کے قیاس کے لئے کافی ہے کہ بلدیاتی اداروں اور نمائندوں کے حوالے سے کیا سوچ اپنائی جارہی ہے اور حکومت کا طرز عمل کیا ہے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہر ادارے کا آئین و دستور میں جو کردارمتعین کیا گیا ہے اس میں کسی بھی جانب سے رکاوٹ پیدا نہیں کی جانی چاہئے ۔اب جبکہ 17اضلاع کے بلدیاتی نمائندے حلف برداری کے بعد قانونی طور پر کام شروع کرنے کے لئے تیار ہیں جبکہ دیگر اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کی تکمیل اور نمائندوں کے چنائو کا عمل آمدہ ماہ کے اوائل تک مکمل ہونا ہے تو حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ نامکمل امور کی جلد سے جلد تکمیل کی جائے اور بلدیاتی اداروں کو وسائل فراہم کرکے عوامی مسائل ان کی دہلیز پر حل کرنے کے عمل کا فوری آغاز ہونا چاہئے۔ جس طرح کے سیاسی حالات جاری ہیں اور ملک میں حکومت کی تبدیلی یا پھرانتخابات کے انعقاد کے امکانات بڑھ رہے ہیں اس میں بلدیاتی اداروں کی اہمیت میں اور اضافہ ہوتا ہے جاری سیاسی حالات سے قطع نظر موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے میں بھی کوئی زیادہ وقت باقی نہیں رہاانتخابی سال شروع ہونے ہی والا ہے ایسے میں حکمرانوں کو خود ہی سوچنا چاہئے کہ بلدیاتی نمائندوں کی سطح پر حکومت کے حوالے سے عوام میں کیا تاثر قائم ہو گاقطع نظر اس کے کہ 17اضلاع کے بلدیاتی نمائندوں کا تعلق کن جماعتوں سے ہے اس میں خود حکمران جماعت کے نمائندوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں بلکہ تقریباً برابر ہی ہے ایسے میں خود حکمران جماعت کے حامی بلدیاتی نمائندوںکواگر کام کا موقع نہ ملے تو وہ عوام کے سامنے اس کی توجیہہ کیا پیش کریں گے اور خود حکومت کے بارے میں ان کے تاثرات کیا ہوں گے ۔ ان عوامل کے باعث یہ خود حکومت کا مفاد ہے اور یقینا یہ حکومت کی آئینی و قانونی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ بلا رکاوٹ بلدیاتی نمائندوں کو کام کرنے کی فضا اور مواقع فراہم کرے ان کو فنڈز کا اجراء کیا جائے تاکہ عوام نے ان کو جس مقصد کے لئے منتخب کیا ہے اور قانون اور دستور کا جو تقاضا ہے وہ پورا ہو۔

مزید پڑھیں:  بجلی کے نئے منصوبے اور آئی ایم ایف کا دباؤ