پاکستان اہم ہے

حکومت کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا ایک عام آدمی کو کوئی قلق نہیں اور سچ پوچھئے تو اس کی خوشی بھی نہیں۔ سیاسی سرکس لگا ہوا ہے اور اس ملک کے عوام ہمیشہ سے اس سیاسی سرکس کے زبردستی کے تماشائی ہیں۔ بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ اس سرکس کا ہر تماشا ہمیں مفت میں دکھایا جاتا ہے لیکن سچ پوچھئے کہ ہم اس سب کی بہت بھاری قیمت اپنی جان سے ادا کرتے ہیں۔ حکمران بدعنوان ہوں یا نااہل ‘ اس بازار میں سودا اس ملک کے عوام کا ہی ہوتا ہے اور ہم خود ایسے عاقبت نااندیش کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ دام بھی ہمارے لگتے ہیں ‘ سودے کے طور پر بکتے بھی ہم ہی ہیں اور ہم جو خود کو تماشائی سمجھتے ہیں ہم کہاں کے تماشائی ہیں ‘ اس سیاسی بازار میں ٹکے ٹوکری بکنے والا سودا ہم ہیں اور خریدار بھی یہ تماشائی بھی یہ سیاستدان ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اپنی اس ارزانی کے مجرم بھی ہم ہیں کیونکہ ان سیاستدانوں کے انتخاب کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں اور بحیثیت قوم اسے کردار کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہم۔ ہمیں اپنی کوتاہیوں کا کوئی احساس نہیں ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ ایک ایسے برا حکمران ہم پر مسلط ہوتا اور ہماری آنکھیں نہ کھلتیں ۔ ہم خاموشی سے انحطاط کی گہری کھائیوں کی طرف اترتے جاتے ہیں کیونکہ اپنے سدھار کا ہمارا ارادہ نہیںاور یہ سیاستدان ہمارے ہی پر تو ہیں ‘ کچھ بدعنوان ‘ کچھ نااہل ‘ ان کی اس نقارخانے میں کوئی جگہ نہیں ‘اور سچ پوچھئے تو ہمارے دلوں میں بھی ان کی کوئی قدر نہیں۔ شاید اسی لئے پاکستان کا یہ حال ہے جو دکھائی دیتا ہے اور اس میں کوئی مثبت تبدیلی کی امید دکھائی نہیں دیتی۔
اس وقت میدان سیاست کا درجہ حرارت بہت زیادہ ہے اور اس میں ہر کوئی اپنا رنگ دکھانے پر مصر ہے ۔ وزیر اعظم صاحب اور ان کے حواری عدم اعتماد کی تحریک جمع کروائے جانے سے پہلے بھی شیریں لب نہ تھے ‘ اب تو ایسے زہر خند ہیں کہ دل اوب جاتا ہے ۔ سیاست میں شائستگی سیاست دانوں کا طرہ امتیاز ہوا کرتی تھی۔ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کیسی بھی نفرت ہوتی اور دشمنی نبھانے میں وہ کسی بھی حد سے گزر جانا چاہتے لیکن اس کے باوجود وہ کبھی اس کا یوں برملا اظہار نہ کیا کرتے تھے ۔ اسی لئے سیاستدانوں کا دوغلا پن مشہور تھا ۔ لیکن اب وہ اس دوغلے پن کو چھوڑ کر بلا واسطہ ہی دست و گریباں دکھائی دیتے ہیں اور اس سے عام آدمی بھی ا لجھن کا شکار رہتا ہے ۔ یوں بھی زندگی مشکل ہے ۔ ان حکمران کے انتخاب نے اسے مشکل ترین کر رکھا ہے ‘ ایسے میں شائستہ لہجے بھی سننے کو نہ ملیں ۔ میڈیا کی طرف دیکھیں تو سیاسی تجزیہ نگار دست و گریباں نظر آئیں’سیاست کے منظر پر انہی الگ سرپٹھول دکھائی دے ‘ اور ساتھ میں یہ احساس ناکامی کہ اب کوئی آزمانے کو باقی بھی نہیں رہا۔ کوئی امید نہیں رہی ‘ کسی کی جانب دیکھنے اور یہ خواب دیکھنے کی گنجائش بھی باقی نہیں رہا کہ یہ اقتدار میں آگیا تو ہمارے دن پھر جائیں گے ۔
تحریک انصاف نے مایوس کیا’ اور مسلم لیگ (ن) کے کردار سے ہم پہلے ہی واقف ہیں ‘ مسلم لیگ(ق) ‘ ایم کیو ایم ‘ پیپلز پارٹی سب کے ہی لیڈران کی خصوصیات سے ہم آگاہ ہیں اور ان میں سے کوئی ایک شخص بھی ہم سے چھپا نہیں ‘ ابتدائی صورتحال ایسی دکھائی دیتی تھی کہ جیسے تحریک انصاف کو پریشانی کی ضرورت نہیں۔ ان کے ساتھی بھی اگرچہ ان سے ناراض تھے لیکن امید تھی کہ اس وقت میں وہ عمران خان صاحب کو اکیلا نہ چھوڑیں گے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے صورتحال واضح سے واضح ترین ہو رہی ہے ۔پرویز الٰہی کے بیان ‘ علیم خان کے معاملات او رخود وزیر اعظم صاحب کی خواہش کہ ایک ملین لوگ عدم اعتماد کے لئے آنے والوں کا راستہ روکیں گے ‘ نے معاملات کو بالکل ہی واضح کر دیا ہے اگرچہ اس عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کی صورت میں بھی اس ملک کی بہتری کے امکانات کی کوئی امید روشن نہیں کیونکہ یہ بازو تو ہمارے آزمائے ہوئے ہیں اور یہ بھی طے ہے کہ عمران خان نے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی عزت اور وقار میں جتنا ا ضافہ کیا ہے وہ شاید ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پہلی دفعہ ہوا تھا ۔ جناب ضیاء الحق صاحب کے دور میں معاملات ا چھے ہی رہے تھے لیکن اس کے بعد تو معاملات کے بگاڑنے کبھی اپنی رفتار ہی کم نہ کی۔ اس عدم اعتماد کا کامیاب ہو جانا ‘ خارجہ حکمت عملی کے حساب سے پاکستان کی بہت بڑی شکست ہو گی۔ عمران خان کی حکومت نے کئی نازک مواقع پر بین الاقوامی دبائو کو برداشت کرکے پاکستان کے وقار کو محفوظ رکھا ہے امید رکھنے والوں میں سے کسی کے لئے بھی ممکن نہیں ۔ پاکستان کے درون خانہ تو عمران خان ایسے کامیاب نہیں رہے لیکن زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کی حکومت اپنے ان احسن اقدامات کی مناسب تشہیر میں بھی ناکام رہی جو انہیں اپنے سر کی کلغی سمجھنے چاہئے تھے ‘ اور اگر یہ عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو ان پروگراموں کی بھی ناکامی اس ملک کا مقدر ہو گی ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے پاس بھی بہت سے سرخاب کے پر نہیں اور جوچند تھے ان کا کسی کو کوئی علم نہ ہوگا۔ ہاں اگر تحریک انصاف عدم اعتماد سے بچ نکلتی ہے تو ان کے مغرور ہو جانے کا امکان بھی ہے جو اور بھی زیادہ خطرناک ہوگا۔ پاکستان کے پاس اس صورتحال میں کیا آپشن ہیں اس پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان سیاسی کارروائیوں سے کہیں زیادہ اہم ہے ۔

مزید پڑھیں:  کچھ علاج اس کا بھی اے چارہ گراں