مشرقیات

آج کل ہر کوئی زمانے کو کوستا دکھائی دیتا ہے زمانے کوکوسا جاتا ہے زمانہ خراب ہے کیا زمانہ آگیا وغیرہ وغیرہ لیکن کبھی ہم یہ نہیں سوچتے کہ زمانہ تو بالکل بھی نہیں بدلا صبح کو سورج نکلنا شام کو ڈھلنا رات سورج چاند ستارے سبھی اپنے پرانے مدار میں ہیں اور ان کی خصوصیت و خاصیت میں ذرا تبدیلی نہیں آئی پھر زمانہ کیسے بدلا سب کچھ تو برسوں اور صدیوں پہلے کے معمولات ہیں اور زمانہ ہے کون زمانے کو برا کہنے کی ممانعت ہے اس لئے کہ زمانہ اور زمانے کا مالک اور اس سارے نظام کو چلانے والا کوئی اور نہیں ہم سب کا خالق و مالک ہے زمانہ بالکل بھی نہیں بدلا ہم بدل گئے ہیں معاشرہ بدل گیا ہے ماہ و سال وہی ہیں مگر ہمارے انداز و اطوار وہ نہیں رہے آج کی مائیں بدل گئی ہیں آج کے والدین اور ہمارے اسلاف میں نمایاں فرق ہے سوچ کی تبدیلی اور اقدار کی بدلائو آج کی نسل زی جنریشن کہلاتی ہے اور ہم جو اپنی زندگی کی بہاریں گزار کر بڑھاپے کی دہلیز پر ہیں یا پھر اس سے بھی آگے بڑھ چکے ہیں ہماری نسل اور موجودہ نسل کے درمیان جنریشن گیپ آچکا ہے ہماری نسل نے قدیم وجدید اور جدید ترین و تیز ترین تبدیلی دیکھی ہے ۔ کسی ایک چیز ہی کو لیں ٹی وی کو لیتے ہیں پہلے ہر گھر میں ٹی وی نہیں ہوتی تھی محلے میں کسی گھر میں ٹی وی آتی تو سبھی ان کے گھر ڈرامہ دیکھنے جاتے پڑوسی آج کی طرح کے نہیں تھے آنکھیں بچھاتے محبت سے پیش آتے خدمت کرتے پھر گھر گھر ٹی وی آگئی مگر بلیک اینڈ وائٹ بڑے سے ڈبے میں بند ٹی وی چینل کیا ہوتا ہے کچھ علم نہیں ہمارے خواب میں بھی نہ تھا کہ ٹی وی کی نشریات دن بھر ہوں گی ٹی وی کی سکرین ایسی رنگین و حسین ہو گی کہ اصل سے زیادہ رنگ و روپ نظر آئے ریموٹ پر بٹن دباتے ہی ایک نئی دنیا نیا پن ہر قسم کے پروگرام اور دلچسپی کی چیزیں سیاست ‘ سیاحت اور شوبز کی چکا چوند نجانے کیا کیا ۔سچ ہے کہ وقت ایک سا نہیں رہتا کیوں کہا جاتا ہے وقت تو وہی ہے وہی دن رات ہمارے حالات بدلتے ہیں ہم بدل جاتے ہیں چیزیں بدلی ہوئی ہیں خوراک و سہولیات میں تبدیلی آئی ہے فیشن و اندازمیںتبدیلی آگئی ہے لباس وہ نہیں رہا انسان وہی ہیں لیکن ان کی سوچ و اطوار میں تبدیلی آئی ہے ۔ ان سارے عوامل کے اثرات کا ہمارے حالات ‘ خاندان ‘ تعلیم ‘ صحت ‘ علاج سبھی پر پڑا ہے جس کے باعث ہم وہ نہیں رہے جو ہمارے اسلاف تھے سہولتوں اور راحتوں نے انسان کو بدل دیا ہے پڑوسی پڑوسی کا محتاج نہیں رہا تو معاشرہ خود بخود بدل گیا آہستہ آہستہ ایسی ایجادات ہوئیں کہ ایک گھر اور ایک کمرے بلکہ ایک ساتھ بیٹھے اور لیٹے ہوئے اپنے ساتھ والے سے دور اور دور سے جڑ گئے احساسات کی موت ہوئی اور اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا بہت کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اور ہم دوش زمانے کو دیتے ہیں زمانے کا کیا قصور۔

مزید پڑھیں:  پشاور میں آتشزدگی کا واقعہ