مجبوری کی طاقت

آج کل کے نوجوانوں کی اکثریت کو روزگار کے بہتر مواقع کے نہ ہونے اور محرومیوں کی شکایت رہتی ہے کتنے ہی نوجوانوں کے برقی پیغامات اس حوالے سے ملے اور ان پر بات ہوئی سرکاری ملازمتوں کا ایک انار سو بیمار ہونا کوئی پوشیدہ امر نہیں پھر بھرتیوں میں ناانصافیاں بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں مضامین کا انتخاب اور ملازمتوں کے مواقع کے حوالے سے ان کی افادیت پر بھی آج کا نوجوان غور کرتا رہتا ہے اور داخلوں کے وقت اسے مدنظر رکھا جاتا ہے کتنے ہی نوجوان اعلیٰ ملازمتوں کی تیاری کے لئے کونسی کتابوں کا مطالعہ کرنا بہتر ہوگا کے حوالے سے مشاورت کے لئے رابطہ کرتے ہیںمسئلہ ملازمت نہ ملنے ہی کا نہیں بلکہ ملازمتیں ملنے کے بعد بھی مشکلات میں کمی نہیں آتی اور محکمہ جاتی ناانصافیوں کا بھی شکوہ معمول کی بات ہے غرض مختلف قسم کے حالات و مسائل سامنے آتے ہیں جن کا لب لباب مایوسی احساس محرومی میں اضافہ اور ان کے لاینحل ہونے کا احساس ہوتا ہے میں ہر بار نوجوانوں کو اپنے متعلقہ مضمون اور شعبے میں مہارت ہی کو کامیابی کا گر بتاتی ہوں اور محنت و قابلیت کے حصول پر زور دیتی ہوں ملازمت ہی پر اکتفا کرنے کی بجائے کچھ نئی راہیں تلاش کرنے اور کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کا مشورہ دیتی ہوں کتنی مثالیں ”پڑھیں فارسی بیچیں تیل” کی سامنے آتی ہیں لیکن میں ان کو کامیابی سے تعبیر کرتی ہوں کہ محنت کرنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا ابھی ایک چھوٹے بچے کی جو حفظ کرتے ہیں اور شام میں گلی محلے ہی میں سموسے اور رول بیچ کر گھر والوں کی مدد بھی کرتے ہیں کا ایک متاثر کن مواد موصول ہوا دیکھ کردل پسیج بھی گیا اور بچے کی محنت پر داد بھی دینے کو دل چاہا اتفاق سے انہی دنوں میرے پاس ایک نوجوان کی داستان محنت و کامیابی کا بھی پیغام آیا ہوا ہے جو میں آپ سے شیئر کرنا چاہتی ہوں ۔ یہ نوجوان ایک اوسط درجے کے سرکاری ملازم کے برخوردار ہیں والد نے بہرحال ہمت کرکے یونیورسٹی تک تعلیم دلائی نوجوان نے ماسٹر انگریزی لسان وادب کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے ایک انسٹی ٹیوٹ میں آفس بوائے کی جزو وقتی ملازمت بھی کی اتفاق سے انسٹی ٹیوٹ میں بیرون ملک داخلے کے خواہشمند طالب علموں کو انگریزی کی تیاری کرائی جاتی تھی نوجوان کو فرصت ملتی تو کسی کلاس کے باہر کھڑا ہو کر لیکچر سننا اور پھر انٹرنیٹ پر اس کی تفصیل اور لوازمات دیکھ کر لیکچر کو مزید جامع اور مفصل انداز میں سمجھنے کی سعی کرتا دھیرے دھیرے ان کو اتنی مہارت حاصل ہوئی کہ ایک ٹیچر کے نہ آنے پر نوجوان نے انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ کو کلاس لینے کی اجازت دینے کی گزارش کی اجازت ملنے پر انہوں نے کلاس کو احسن طریقے سے پڑھایا اور طلبہ پوری طرح مطمئن ہوئے تو ادارے کے سربراہ کو بڑی خوشی ہوئی جگہ خالی ہوتے ہی انہوں نے نوجوان کو ٹیچر مقرر کر دیا وہاں پر نوجوان چالیس ہزار روپے کے مشاہرے پر ماسٹر کی تعلیم مکمل ہونے تک پڑھایا ۔ اسلام آباد مہنگا شہر ہے اور نوجوان کے والد مدت ملازمت پوری کرکے سبکدوش ہو چکے تھے ایسے میں ان کو مالی مشکلات کے پیش نظر کچھ مزید کرنے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے آن لائن اسائمنٹ لکھنے کا کام تلاش کیا اس وقت ان کے پاس برطانیہ کی پانچ مشہور یونیورسٹی کے طالب علموں کے اسائمنٹ آتے ہیں اور وہ معقول رقم کما رہا ہے وہ خود بس اسی کام ہی کو کافی سمجھتے ہیں کہ محنت کا معقول بلکہ بہت اچھا معاوضہ ملتا ہے اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں گھر اور خاندان والوں کے دبائو پر اعلیٰ ملازمتوں کے امتحان کی تیاری بھی کرنا پڑ رہا ہے حالانکہ جو معاوضہ وہ ہفتے بھر کی محنت کا وصول کرتا ہے سول سرونٹ کی پورے مہینے کی تنخواہ کے برابر ہے پھر یس سر اور جی سر الگ تبادلہ اور دیگر مشکلات الگ بہرحال یہ ایک الگ بات اور ترجیحات کا معاملہ ہے جو ہمارے مدنظر نہیں اصل بات نوجوانوں کو یہ بتانا تھا کہ مالک کائنات کی دنیا بہت وسیع ہے اب تو عقل اور مشاہدہ بھی اس کا گواہ ہے اور اس مفہوم کو پوری طرح دیکھ اور سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں۔ مالک کائنات نے رزق کے ذرائع کو بھی وسیع رکھا ہے گلوبل ویلج بننے کے بعد اب سرحدیں بھی حصول رزق میں حائل نہ رہیں اب بس آدمی ہے اور محنت وسعی۔ جتنی سعی محکم و پیہم ہو گی نتائج اور ثمرات بھی اس کے مطابق ہوتے ہیں میں نے نوجوان سے سوال کیا کہ وہ اپنی کامیابی کی کہانی کو کیا نام دیں گے انہوں نے ایک ہی لفظ میں جواب دیا”مجبوری” میں سوچتی ہوں کہ ہم اس لفظ کو کس قدر منفی طور پر سوچتے اور استعمال کرتے ہیں لیکن اس نوجوان نے اس کے نیا مفہوم سے ہمیں آشنائی دی اور کیا بہتر مفہوم دیا ہم تو بس مجبوریوں کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں لیکن اسے اپنی ہمت وطاقت کوئی کوئی بناتا ہے جو مجبوری کو گلے لگا کرمحنت سے اس سے نکلنے کی کوشش کرے قدرت بھی یقینا اسی کا ساتھ دیتا ہے ۔ محنتی کو مالک کائنات نے اپنا دوست قرار دیا ہے اور جو لوگ خود کو تبدیل کرنے کے جتن نہ کریں قدرت بھی ان کی مدد نہیں کیا کرتی حالات جیسے بھی ہوں ہمت اور محنت کامیابی کا نسخہ ہے کیا زبردست مفہوم دیا ہے نوجوان نے مجبوری کو ۔ کامیابی کا نسخہ مجبوری بن جائے نہ تو مجبوری باقی رہے اور نہ کوئی مجبور۔
قارئین اپنے مسائل و مشکلات 03379750639 پر واٹس ایپ میسج ‘ وائس میسج اور ٹیکسٹ میسج کر سکتے ہیں

مزید پڑھیں:  جینا محال ہے