تشدد نہیں سیاسی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت

پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کا سندھ ہائوس پر دھاواپی ٹی آئی کارکنوں کے منحرف ارکان کے خلاف پرتشدد مظاہرے اور خاص طور پر پاکستان تحریک انصاف کے پشاور سے تعلق رکھنے والے دیرینہ ناقد رکن قومی اسمبلی اور ان کے تین بیٹوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں سیاست میں تشدد کے بڑھتے رجحان کا اشارہ ہیں ایک ایسے وقت میں جب ملک میں امن و امان کی صورتحال ویسے بھی نازک حالات سے دوچار ہے ایسے میں سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کی جانب سے بھی تشدد کا راستہ اختیارکیا گیا تو پھر معاشرے کو خطرات سے محفوظ بنانے کی ذمہ داری کون پوری کرے گا۔پرتشدد مظاہروں اور خاص طور پر منحرف اراکین اسمبلی کے گھروں کا گھیرائو مناسب امر نہیں البتہ ان اراکین کے خلاف پرامن طور پر احتجاج اور اپنے جذبات کے اظہارمیں قباحت نہیں ۔سیاسی کارکنوں کو پرامن احتجاج کا حق حاصل ہے اور اپنے جذبات کو ان عناصر تک پہنچانے کے لئے وہ اگر قانون کو ہاتھ میں لینے سے گریز کریں اور ان اراکین کے اہل خانہ کو ہراساں نہ کیا جائے ‘ دھمکیاں نہ دی جائیں اور سیاسی طور پر ان کا مقابلہ کیا جائے تو یہ موزوں اور احسن امر کہلائے گا۔جہاں تک سیاسی طور طریقوں کا سوال ہے سیاسی کارکنوں کے لئے سب سے بہتر موقع آئندہ عام انتخابات میں ان عناصر کے خلاف کام کرکے ان کو شکست سے دو چار کرنے کا ہونا چاہئے ۔یہ الگ بات ہے کہ منحرف اراکین کوئی نو آموز سیاستدان نہیں بلکہ وہ پہلے ہی سے مختلف جماعتوں سے منتخب ہو کر اپنی مقبولیت منوانے والی شخصیات ہیں اور ان کو تحریک ا نصاف نے موقع بھی اسی کو مد نظر رکھ کر دیا گیا تھاچونکہ ان افراد کی اکثریت پاکستان تحریک انصاف سے جذباتی وابستگی رکھنے والوں کی نہیں تھی حکمران جماعت اپنے مفاد کی خاطر ان کو ساتھ ملا چکی تھی جبکہ ان عناصرنے اپنے مفاد کے تحفظ کے لئے چڑھتی سورج کی پوجا کی تھی اب جب ہوائوں کا رخ تبدیل ہوا تو مجبوری میں بندھے دونوں میں سے جس کو پہلے موقع ملا ان کا دائو لگ گیااس طرح کی صورتحال سے صرف تحریک انصاف دوچار نہیں ہوئی بلکہ دوسری جماعتیںبھی اس طرح کے حالات کا شکار ہو چکی ہیں مگر کسی نے عبرت حاصل نہیں کی اس طرح کے نوشتہ دیوار فیصلوں کے وقت ہی اس کا انجام بخوبی نظر آنے لگتا ہے جس پر کسی بھی جانب سے توجہ دینے کی زحمت نہیں کی جاتی پاکستان کی سیاست کو اس طرح کے عناصر سے پاک کرنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اس امر پر اتفاق کر لیں کہ وہ حصول اقتدار اور اقتدار بچانے کی خاطر کوئی غیر اصولی فیصلہ نہیں کریں گی جب تک ایسا نہیں ہوتا تاریخ خود کو دہراتی رہے گی۔اب بھی دلچسپ امر یہ ہے کہ ایک جانب ان باغی اراکین کومطعون کیا جاتا ہے تو دوسری جانب حکومتی عناصران کو واپسی کی دعوت بھی دے رہے ہیں قول و فعل کا یہی تضاد ہماری سیاست کا سب سے بڑا المیہ ہے جس سے بچنے کے لئے شعوری طور پر کوئی بھی تیار نہیں۔
حیرت انگیز رپورٹ
خیبر پختونخواحکومت کی جانب سے 4500 کے لگ بھگ افغان پیش امام اور خطیب حضرات کو ماہانہ وظائف کے لئے بنائی گئی فہرست سے نکال دینا اور سپیشل برانچ کی یہ رپورٹ کہ افغان پیش امام مختلف مہاجر کیمپوں اور عام آبادی میں رہائش رکھے ہوئے ہیں چشم کشاامر ہے ۔قومی سلامتی پالیسی کی تشکیل کے وقت اور اداروں کی جانب سے اس طرح کے عناصر کو نکالنے پر زور دیا گیا تھا مگر اب خود سرکاری طور پر اتنے بڑے پیمانے پر ان کی موجودگی کا اعتراف سمجھ سے بالاتر ہے بہرحال اس امر کی وضاحت نہیں کہ کتنے علمائے کرام باقاعدہ ویزہ لے کر قانونی طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جن کے پاس قانونی دستاویزات موجود نہیں اس طرح کی رپورٹ کے مقامی طور پر کوئی اثرات ہوں یا نہ ہوں عالمی طور پر اس حوالے سے اعتراضات سامنے آسکتے ہیں۔اس ضمن میں جلد سے جلد کوئی پالیسی وضع کرکے اس پر عملدرآمد یقینی بنانے پر توجہ کی ضرورت ہے ۔توقع کی جانی چاہئے کہ اس معاملے کا جائزہ لیا جائے گا اور اس حوالے سے ضروری اقدامات اٹھانے میں تساہل کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا۔
یوٹیلٹی سٹورز ‘بڑھتی شکایات
رمضان ا لمبارک کی آمد سے قبل ہی یوٹیلٹی سٹورز پر اشیائے ضروریہ کا ناپید ہونا اور یہاں پر رعایتی قیمتوں کی بجائے بازار کے نرخ پر اشیاء کے فروخت کی شکایات قابل توجہ امر ہے ہر سال اسی قسم کی شکایات سامنے آتی ہیں لیکن ان کو دور کرنے اور صورتحال سے نمٹنے کی کوئی سعی نہیں ہوتی اگر یوٹیلٹی سٹورز کی افادیت باقی نہیں رہی تو بہتر ہوگاکہ اس کی نجکاری کی جائے ۔اب جبکہ رمضان کی آمد آمد ہے تو جتنا جلد ممکن ہو سکے اس عوامی شکایت کا فوری نوٹس لے کر جتنا جلد ممکن ہو سکے اس کا ازالہ کیا جائے ۔عوامی شکایات کے حوالے سے سنجیدگی اختیار کرکے ہی ان کا ازالہ ممکن ہو گا۔

مزید پڑھیں:  جینا محال ہے