ڈی ایچ او آفس

ڈی ایچ او آفس تمام آوارہ جانوروں کیلئے محفوظ قیام گاہ بن گیا

ویب ڈیسک : مولوی امیر شاہ ہسپتال سے نکلنے والے بائیو ویسٹ اور خوراکی اشیاء کو تلف کرنے کی بجائے کوڑا دان میں ڈالنے سے شہر بھر کے آوارہ کتوں، بلیوں اور آدم خور چوہوں نے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر پشاور کے دفتر میں مستقل طورپر ڈیرے ڈال دیئے ہیں درجنوں کے حساب سے ان جانوروں نے ہسپتال کے مریضوں اور ملازمین کیلئے خطرہ کا ماحول بنا دیا ہے جس کی وجہ سے کسی بھی وقت بڑا سانحہ ہونے کا خدشہ ہے واضح رہے کہ مولوی امیر شاہ ہسپتال ہشت نگری میں بائیوویسٹ تلف کرنے کا کوئی نظام موجود نہیں اور ہسپتال سے نکلنے والا تمام طبی اور غیر طبی گندا مواد ڈی ایچ او آفس پشاور کے سامنے پارک ایک ٹرالی میں پھینکا جارہا ہے
چونکہ اس ہسپتال میں بچوں کی پیدائش کیلئے زیادہ لوگ آتے ہیں اس لئے پیدائش کے بعد دیگر طبی گند کے علاوہ بچوںکی نال کو بھی کاٹ کر گند میں ڈال دیا جاتا ہے ماہرین کے مطابق کتوں، بلیوں اور چوہوں کیلئے یہ نال ایک مرغوب غذا ہے اور تیز حس کی وجہ سے شہر کے دور دراز علاقوں سے یہ جانور محفوظ پناہ گاہوں ڈی ایچ او آفس میں رہائش اختیار کئے ہوئے ہیں جبکہ ہسپتال میں داخل مریضوں کے کھانے پینے کا بچا کچھا سامان بھی کھلے عام پھینکا جارہا ہے ۔
جس کے نتیجے میں یہ کتے ڈی ایچ او اور ان کے ماتحت ملازمین کے ساتھ ساتھ ہسپتال کے مریضوں اور تیمار داروں پر حملے کر رہے ہیں اس وقت ہسپتال کے وارڈز اور احاطہ میں کتوں اور بلیوں کی بھر مار ہے اور چوہے بھی بغیر کسی خطرے کے آزاد گھوم رہے ہیں دوسری جانب صوبہ بھر میں انٹی ریبیز نہیں اور مذکورہ تینوں جانور یہ وائرس پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں کسی فرد کو کاٹنے کی صورت میں یہ مسئلہ بہت خطرناک ہوجائے گا اس لئے ان جانوروں کو روکنا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے لیکن ہسپتال انتظامیہ اور ڈی ایچ او کی جانب سے کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا جارہاہے اور کسی سانحہ کا انتظار کیا جارہا ہے ڈی ایچ او آفس کے پارکنگ پر بھی کتے قابض ہوگئے ہیں
اور چوکیدار صرف لوگوں کی نگرانی پر لگے ہوئے جانوروں کے ہسپتال اور ڈی ایچ او دفتر میں گھسنے پر کسی قسم کی پابندی نہیں اس ضمن میں ڈی ایچ او پشاور اور ہسپتال کی ایم ایس سے رابطہ کی کوشش کی گئی تاہم دونوں افسران نے ٹیلی فون اٹینڈ نہیں کیا اور کوئی جواب نہیں دیا گیا ہے تاہم دوسری طرف اس عمل کو انتہائی خطرناک قرار دیا جارہا ہے جس کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں کیلئے بھی جانی خطرات ہیں۔

مزید پڑھیں:  جمرود، حدبندی تنازعہ پر فائرنگ سے 3 افراد جاں بحق، تین زخمی