حکومت گرانے کی انکوائری

میری حکومت گرانے کی انکوائری ہونی چاہئے،عمران خان

ویب ڈیسک:چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے ایک بار پھر اپنی حکومت گرانے میں سابق آرمی چیف کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ سپر کنگ تھے اور سارے اختیارات ان کے پاس تھے۔ اپنے ویڈیو خطاب میں عمران خان کہنا تھا سابق آرمی چیف نے جو باتیں کیں اس پر حیران ہوں، سابق آرمی چیف نے کہا کہ ملک کو عمران خان سے بچانا ہے، جنرل باجوہ سپر کنگ تھے اور سارے فیصلے وہ کرتے تھے، جنرل باجوہ نے تسلیم کر لیا کہ نیب بھی ان کے کنٹرول میں تھا، ایک شخص کے پاس ساری پاور تھی اور کوئی ان پر تنقید نہیں کرسکتا تھا۔ان کا کہنا تھا سابق آرمی چیف نے تسلیم کیا کہ میری حکومت گرائی، وہ تسلیم کررہے ہیں کہ امریکاعمران خان سے خوش نہیں تھااس لئے حکومت گرائی ، حکومت کے کام اس وقت ہوتے تھے جب جنرل باجوہ کہتے تھے ٹھیک ہے
تنقید کا نشانہ میں تھا اور سارے اختیارات ان کے پاس تھے۔ چیئرمین تحریک انصاف کا کہنا تھا سابق آرمی چیف کا فیورٹ شہباز شریف تھا، شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کا فیصلہ انھوں نے پہلے ہی کر لیا تھا، میری حکومت گرانے کی انکوائری ہونی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا طاقتور ٹولے اور مافیاز کو قانون سے اوپر رہنے کی عادت ہے، میرے پیچھے یہ ساڑھے تین سال لگے رہے، ان کو صرف ایک شخص سے خوف ہے اور وہ عمران خان ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ مجھے الیکشن سے روکنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، نواز شریف چاہتے ہیں مجھے نااہل کروا دیں اور جیل میں ڈلوا دیں، جب یہ سمجھیں گے کہ گرائونڈ تیار ہے تو الیکشن کرا دیں گے۔
عمران خان کا کہنا تھا آئین کی حفاظت کے لیے پوری قوم عدلیہ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ پاکستان کا آئین واضح کہتا ہے کہ الیکشن 90 دن سے آگے نہیں جا سکتے، 90 دن کے بعد نگران حکومتیں غیر آئینی ہو جائیں گی۔عمران خان نے قبل ازیں ایک انٹرویو میںکہاکہ نئی عسکری قیادت میں تاثر ہے کہ رجیم چینج آپریشن ناکام ہوچکا، جنرل(ر) باجوہ کے شہباز شریف کے ساتھ قریبی تعلقات تھے جن کے نتیجے میں رجیم چینج آپریشن کے لیے راہ ہموار ہوئی۔ عمران خان نے کہا کہ عوام کی منتخب کردہ حکومت کے پاس ذمہ داری کے ساتھ ساتھ اختیار بھی ہونا چاہیے دونوں کو علیحدہ نہیں رکھا جاسکتا، جب اختیار آرمی چیف کے پاس اور ذمہ داری وزیر اعظم کے پاس ہو تو نظام نہیں چل سکتا۔ عمران خان نے میزبان کی طرف سے پوچھے گئے اس سوال کا جواب دیا کہ کیا وہ اب بھی ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کے فیصلے پر قائم ہیں۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے لیے یہ ممکن تھا کہ وہ دوبارہ منظم ہو، تاہم انہوں نے سوال کیا کہ اس وقت پاکستانی سیکیورٹی فورسز کہاں تھیں، خفیہ ادارے کہاں تھے، کیا ان کو ٹی ٹی پی کی بحالی نظر نہیں آرہی تھی، سابق وزیراعظم نے کہا کہ لاپرواہی کا ذمہ دار ہمیں کیسے ٹھہرایا جاتا ہے؟

مزید پڑھیں:  پاکستان مسلم لیگ ن کی صدارت سے شہباز شریف مستعفی